جامعہ کراچی: شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی12 ویں برسی کے موقع پر خراج عقید ت

0
2095

بینظیر بھٹو عالم اسلام کی ان مدبر خواتین میں سے ایک ہے جنہیں انتخابات کے ذریعے سے دودفعہ پاکستان کا وزیر اعظم بنایا گیا،ان کی پوری زندگی نہ صرف پاکستانی عوام بلکہ پوری دنیا کے لئے ایک رول ماڈل ہے ۔مقررین
پاکستان پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما پروفیسر این ڈی خان نے کہا کہ بینظیر بھٹو عالم اسلام کی ان مدبر خواتین میں سے ایک ہے جنہیں انتخابات کے ذریعے سے دودفعہ پاکستان کا وزیر اعظم بنایا گیا اور جب تیسری مرتبہ عوام کی یہ خواہش تھی کہ دوبارہ انہیں وزیر اعظم پاکستان بنایا جائے تواسی لیاقت باغ میں جہاں پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم لیاقت علی خان کو شہید کیا گیا اور اسی مقام پر محترمہ بینظیر بھٹو کو بھی شہید کیا گیا ۔تاریخ ایک ایسا مضمون ہے کہ جس کا تسلسل ماضی ،حال اور مستقبل میں رہتاہے۔ہمیں بینظیر بھٹو کی شخصیت پر تحقیق کرنے کی ضرورت ہے اور میں امید کرتاہوں کہ بینظیر بھٹو چیئر جامعہ کراچی محترمہ کی شخصیت پر تحقیق کرے گی اور اس کو فروغ دے گی۔ان خیالات کا اظہارانہوں نے جامعہ کراچی کے زیر اہتمام محترمہ شہید بینظیر بھٹو کی12 ویں برسی کے موقع پر بینظیر بھٹو کو خراج عقید ت پیش کرنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
جامعہ کراچی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود عراقی نے کہا کہ زندہ قومیں کبھی بھی اپنے محسنوں کو فراموش نہیں کرتیں۔بینظیر کی خواہش تھی کہ مسلم اور غیر مسلم مردوعورت سب کو برابری کی بنیاد پر ان کے حقوق حاصل ہوں اورپاکستانی معاشرے میں کسی کی بھی حق تلفی نہ ہو۔اپنی سیاسی ادوار میں بینظیر بھٹو نے کافی جدوجہد کی مگر اس دوران بھی وہ انسانی حقوق کے لئے آواز بلند کرتی رہیں۔پاکستانی معاشرے میں مفاہمت کی اہمیت کا ادراک سب سے پہلے بینظیر کو ہوا اور اس حوالے سے وہ عملی طور پر سرگرم بھی رہیں۔
معروف صحافی وکالم نگار محمووشام نے کہا کہ27 دسمبر ہماری تاریخ کا سیاہ ترین دن ہے، بھٹو خاندان کی داستان درد بھری اور خون آلود ہے۔ایک ہی پارٹی سے اتنی طویل اور مسلسل وفادار ی کسی اور جماعت کے مقدر میں نہیں آئی ہے۔سب سے زیادہ محبتیں جن سے ہوتی ہیں سب سے زیادہ توقعات بھی ان ہی سے ہوتی ہیں ۔جمہوریت یقینا سب سے بڑا انتقام ہے ،آمروں ،غاصبوں ،سرداروں ،جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے ظلم وستم جمہوریت سے ہی ختم ہوسکتے ہیں ۔جمہوریت کا مطلب مشاورت اور اجتماعی سوچ ہے۔آج کے قومی اور بین الاقوامی حالات جس پروگرام کا تقاضا کرتے ہیں وہ ترتیب دینا ہوگا ،شخصیتیں فانی ہیں ان کو ایک روزچلے ہی جانا ہوتاہے لیکن ان کے افکار توزندہ ہوتے ہیںاندھیروں سے اجالوں میں وہ ہی لے جاتے ہیں۔
زیبسٹ ٹرسٹ کے سیکریٹری ڈاکٹرسلیمان شیخ نے کہا کہ محترمہ پاکستانی خواتین کے لئے ایک رول ماڈل ہیں،ان کی پوری زندگی نہ صرف پاکستانی عوام بلکہ پوری دنیا کے لئے ایک رول ماڈل ہے ۔وہ شہادت تک جمہوریت کی بقاءکے لئے لڑتی رہی۔وہ معاشرے کے ہرفرد کو برابری کی بنیاد پر حقوق فراہم کرنے خواہشمند تھی اور اس کے لئے ہر پلیٹ فورم پر بات کرتی تھیں۔
ڈائریکٹر شاہ عبداللطیف بھٹائی چیئر جامعہ کراچی پروفیسرسلیم میمن نے نظامت کے فرائض انجام دیتے ہوئے کہا کہ محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت پاکستان کے بڑے المیوں میں سے ایک ہے،27 دسمبر کی شام کو روشنی کی کرن بجھ گئی اور اپنے خالق حقیقی سے جاملی ۔بینظیر بھٹو کے ناقدین اور مخالفین کی کمی نہیں ہے لیکن ان کے پرستاروں اور مداحوں کی تعداد ناقدین سے کئی سوگنازیادہ ہے۔وہ ایک دلیر جید اور بہادر خاتون تھیں اپنی شہادت سے چند روز قبل انہوں نے کہا تھا کہ گیدڑ کی طرح ڈرکر لمبی عمر حاصل کرنے کے بجائے شیر کی طرح سینہ تان کرآگے بڑھتے ہوئے جان دینا میرے لئے باعث فخر ہوگا۔
قائم مقام ڈائریکٹر بینظیر بھٹو جامعہ کراچی پروفیسر ڈاکٹر نسرین اسلم شاہ نے خطبہ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ بینظیر بھٹو ایک ویژن اور سیاسی سوچ کا نام ہے۔ان کی شخصیت پر ہمیں تحقیق کرنے اور ان کے کام کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here