امریکہ کے انخلا سے خطے میں جو عدم استحکام پیدا ہوگا وہ بھی امریکہ کے مفاد میں ہے کیونکہ اس سے چین اور روس کا خطے پر بڑھتا ہوا اثر و رسوخ کم ہوگا اور ان پر منفی اثرات پڑیں گے۔سابق سفیر ڈاکٹر جمیل احمد خان

0
613

امریکہ کے انخلا سے خطے میں جو عدم استحکام پیدا ہوگا وہ بھی امریکہ کے مفاد میں ہے کیونکہ اس سے چین اور روس کا خطے پر بڑھتا ہوا اثر و رسوخ کم ہوگا اور ان پر منفی اثرات پڑیں گے۔سابق سفیر ڈاکٹر جمیل احمد خان
بدقسمتی سے پاکستان کی خارجہ پالیسی میں فوقتاً فوقتاً دیگر ممالک کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے غیر ضروری تبدیلیاں کی جاتی رہی ہیں جس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔ڈاکٹر خالد عراقی
عالمی برادری طالبان حکومت کو تاحال تسلیم کرنے سے گریزاں ہے اور ان کے رویے سے متعلق شکوک وشبہات کا شکارہیں۔ڈاکٹر نعیم احمد
طالبان کو تحریک طالبان پاکستان کے حوالے سے مسائل کا سامنا ہے کیونکہ اگر ان کے خلاف ایکشن لیا گیا تو وہ داعش کے ساتھ مل سکتے ہیں۔عرشی سلیم ہاشمی
کراچی:(اسٹاف رپورٹر) سابق پاکستانی سفیر ڈاکٹر جمیل احمد خان نے کہا کہ افغانستان خطے میں ایک اہم سٹریٹجک پوزیشن کا حامل ہے جہاں عدم استحکام ہونے سے پورے خطے بالخصوص پاکستان میں عدم استحکام پیدا ہوتا ہے۔ امریکہ کے انخلا سے خطے میں جو عدم استحکام پیدا ہوگا وہ بھی امریکہ کے مفاد میں ہے کیونکہ اس سے چین اور روس کا خطے پر بڑھتا ہوا اثر و رسوخ کم ہوگا اور ان پر منفی اثرات پڑیں گے۔افغانستان اپنے جغرافیائی حیثیت کی بدولت متعددممالک کے مابین پل کا کرداراداکرسکتاہے۔افغانستان میں امن دیرپاامن قائم ہونے کی صورت میں کئی ممالک آپس میں آزادانہ،کم اخراجات اور آسانی سے تجارت کرسکتے ہیں اور اسی وجہ سے افغانستان ایک طویل عرصے سے عالمی طاقتوں کے نشانے پر ہے۔تاریخ نے ثابت کردیا کہ افغانستان پر کوئی بھی طاقت طویل عرصے تک حکمرانی نہیں کرسکتی اور ہم اس حقیقت کو بھی نہیں جھٹلاسکتے کہ کئی دہائیوں سے افغانستان میں امن کی ہرکوشش عالمی طاقتوں کے اپنے ایجنڈے کی وجہ سے ناکامی سے دوچارہوئیں۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے جامعہ کراچی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے زیر اہتمام کلیہ فنون وسماجی علوم جامعہ کراچی کی سماعت گاہ میں منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس بعنوان: ”طالبان افغانستان کے حکمران: پاکستان اور خطے پر اثرات“ کی افتتاحی تقریب سے کلیدی خطاب کرتے ہوئے کیا۔
ڈاکٹر جمیل احمد خان نے مزید کہا کہ افغانستان میں موسم سرماکی آمد کے باوجود امریکی ایماپر غیر ملکی امدادکی بندش کی وجہ سے افغانستان میں بھوک وافلاس،طبی وبنیادی سہولیات کے فقدان اوربے یقینی کی صورتحال میں دن بدن تیزی سے اضافہ ہورہاہے جو ایک مرتبہ پھر خانہ جنگی کا سبب بن سکتی ہے۔
جامعہ کراچی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خالد محمو دعراقی نے کہا کہ افغانستان کی خطے میں اہمیت اور افادیت صرف علاقائی سطح پر نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر انہتائی اہمیت کی حامل ہے،یہ ہی وجہ ہے کہ افغانستان میں ہونے والی سیاسی اور دیگر تبدیلیوں کے اثرات پوری دنیاپر بلواسطہ یا بلاواسطہ مرتب ہورہے ہیں۔کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی اس ملک کی قومی ضروریات اور مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے مرتب کی جاتی ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان کی خارجہ پالیسی میں فوقتاً فوقتاً دیگر ممالک کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے غیر ضروری تبدیلیاں کی جاتی رہی ہیں جس کا خمیازہ ہم آج تک بھگت رہے ہیں۔
ڈاکٹر خالدعراقی نے مزید کہا کہ70 کی دہائی کے آخر ی سالوں میں کئے جانے والے فیصلوں کی قیمت ہم آج تک اداکررہے ہیں۔افغان مہاجرین کی سب سے بڑی تعداد نے پاکستان اور اس کے بعد دیگر ممالک بشمول ایران میں سکونت اختیارکی لیکن دیگر ممالک کے مقابلے میں ہمارے ملک میں لاقانونیت،کلاشنکوف کلچر اور منشیات جیسے گھناؤنے کاروبار جس تیزی بڑھا اس کی مثال نہیں ملتی۔ایران نے اپنی حکمت عملی اور قانون پر عملدرآمد کرتے ہوئے اپنے ملک کو ایسی چیزوں سے دوررکھا۔پاکستان اور افغانستان میں استحکام نہ صر ف ایشائی خطے بلکہ پوری دنیا میں استحکام کا ضامن ہوگا،ہمیں عصرحاضر کے جدید تقاضے،صورتحال،مفادات،تجارتی اور معاشی ضروریات کو مدنظررکھتے ہوئے مربوط اوردورس نتائج کے حامل خارجہ پالیسی مرتب اور اس پر عمل پیراہونے کی ضرورت ہے۔
امریکی اسکالر کگلمین نے کہا کہ پورے خطے کے ممالک افغانستان کی موجودہ صورتحال کی وجہ سے عدم تحفظ کا شکار ہیں،چین اور روس کے علاوہ بھارت کو بھی انتہاپسندتنظیموں کی وجہ سے خطرات درپیش ہیں، پاکستان کو تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے بھی خدشات ہیں۔ میرا خیال ہے کہ طالبان حکومت تحریک طالبان پاکستان کے خلاف کسی بھی کاروائی سے گریزکرے گی۔
رئیسہ کلیہ فنون وسماجی علوم جامعہ کراچی پروفیسر ڈاکٹر نصرت ادریس نے کہا کہ افسوسناک امر یہ ہے کہ طالبان کے حکومت سنبھالنے کے بعد بین الاقوامی ڈونرز نے افغان حکومت کی فنڈنگ بند کردی ہے۔ افغان بجٹ کا 70 فیصد بین الاقوامی فنڈنگ پر منحصر تھا جو اب بند ہوچکاہے، طالبان حکومت کو نئے معاشی ذرائع تلاش کرنے کی ضرورت ہے جس سے وہ اپنی حکومت کو معاشی طور پر مستحکم رکھ سکیں۔ پاکستان نے عالمی برادری سے درخواست کی ہے کہ وہ افغانستان کی معاشی حالت کو سدھارنے میں آگے اکر اپنا کردار ادا کریں، حال ہی میں اقوام متحدہ کی جانب سے افغانستان کو 1.2 بلین ڈالرز سے زائد امدادی پیکج دینے کا وعدہ بھی انتہائی خوش آئند ہے۔افغانستان کی ترقی اور امن پاکستان سے جڑا ہوا ہے۔ افغانستان میں حالات کی خرابی کا سیدھا اثر پاکستان کے امن و امان پر پڑتا ہے۔ پاکستان کا سب سے بڑا خدشہ افغانستان کے اندر موجود دہشتگرد تنظیمیں، افغان مہاجرین، معاشی مسائل اور خواتین کے حقوق کا عدم تحفظ ہے۔ پاکستان سمجھتا ہے کہ ایک جامع اور تمام قومیتوں پر مبنی افغان حکومت ہی افغانستان کے مسائل کا دیرپا حل ہے۔
چیئر مین شعبہ بین الاقوامی تعلقات جامعہ کراچی پروفیسر ڈاکٹرنعیم احمد نے کہا کہ افغانستان میں طالبان حکومت کو اس وقت بڑے چیلنجز درپیش ہیں جس میں سب سے بڑا چیلنج طالبان کو حکومت کو تسلیم کرنے کا ہے۔عالمی برادری طالبان حکومت کو تاحال تسلیم کرنے سے گریزاں ہے اور ان کے رویے سے متعلق شکوک وشبہات کا شکارہیں۔دوسراچیلنج افغانستان کی سیکیورٹی صورتحال ہے کیونکہ طالبان کے حکومت سنبھالنے کے بعد دہشت گرد حملے ہورہے ہیں جس سے امن کی وامان کی صورتحال خراب ہے۔تیسرا چیلنج افغانستان کی ابترمعاشتی صورتحال ہے جس سے حکومتی کارکردگی اور معاشرے کو شدید نقصانات کا سامنا کرناپڑھ رہاہے اور اس کے ساتھ ساتھ طالبان اور عام افغان عوام کے مابین عدم اعتماد کی فضاء ہے۔
نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی اسلام آباد کے ڈیپارٹمنٹ آف پیس اینڈ کنفلیکٹ اسٹڈیز کی چیئرپرسن پروفیسر ڈاکٹر عرشی سلیم ہاشمی نے کہا کہ جنوبی ایشیا میں دہشتگردی کے مسائل درپیش ہیں جن میں افغانستان طالبان والا مسئلہ اہم ہے۔ طالبان کو تحریک طالبان پاکستان کے حوالے سے مسائل کا سامنا ہے کیونکہ اگر ان کے خلاف ایکشن لیا گیا تو وہ داعش کے ساتھ مل سکتے ہیں جو افغان طالبان کے خلاف کارروائیوں می ملوث ہیں اور اگر وہ ان کے خلاف کارروائی نہ کریں تو حکومت پاکستان کے ساتھ تعلقات خراب ہونے کے خدشات ہیں۔ بھارت بھی طالبان کی وجہ سے پریشان ہے کیونکہ طالبان بھارت میں موجود جہادی تنظیموں سرگرم ہیں۔
سابق رئیس کلیہ فنون وسماجی علوم جامعہ کراچی پروفیسر ڈاکٹر مونس احمر نے کہا کہ افغانستان پاکستان سے دو سو برس پرانا ملک ہے مگر یہ آج تک ایک ریاستی نظام میں ڈھل نہیں سکا، آج تک ریاستی ادارے اور نظام ایک زبوں حالی کا شکار ہے اگر طالبان کو تسلیم شدہ حیثیت مل گئی تب وہ اپنا اصل چہرہ دھائینگے اور وہ ا اس سے زیادہ دہشت ناک ہوگا۔افغانستان میں تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لے کر ہی استحکام کی طرف جایا جاسکتا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here