اٹھارویں ترمیم کے بعد محکمہ محنت میں وفاق کو صوبوں کو جو شئیر اور اثاثے دینا ہیں وہ یہ دینا نہیں چاہتے،وزیر تعلیم و محنت سندھ سعید غنی

0
1331

اٹھارویں ترمیم کے بعد محکمہ محنت میں وفاق کو صوبوں کو جو شئیر اور اثاثے دینا ہیں وہ یہ دینا نہیں چاہتے،وزیر تعلیم و محنت سندھ سعید غنی
کراچی:(اسٹاف رپورٹر) وزیر تعلیم و محنت سندھ سعید غنی نے کہا ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد محکمہ محنت میں وفاق کو صوبوں کو جو شئیر اور اثاثے دینا ہیں وہ یہ دینا نہیں چاہتے اور اسی لئے انہوں نے غیر قانونی اور غیر آئینی طور پر ای او بی آئی اور ورکر ویلفئیر فنڈز پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ سی سی آئی ایک آئینی ادارہ ضرور ہے لیکن اس کے پاس یہ اختیار نہیں کہ وہ کسی بھی صوبائی اسمبلی کے قانون کو رد کرے یا ہائی کورٹ کے فیصلے کو تسلیم نہ کرے۔ اگر کوئی صوبہ 18 ویں ترمیم کے بعد اپنی اسمبلی سے قانون سازی نہیں کرتا تو اس کی سزا قانون سازی کرنے والے صوبوں کو نہیں دی جاسکتی۔ موجودہ نااہل، نالائق اور سلیکٹیڈ حکومت نے ایل این جی کی مد میں 122 ارب روپے کے عوام کو ٹیکہ لگانے کے بعد ایک بار پھر نااہلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بروقت آرڈر ترسیل نہ کرکے عوام کو مزید 20 ارب روپے کا ٹیکہ لگا دیا ہے۔ وفاق صوبوں کو نہیں بلکہ صوبے وفاق کو پالتے ہیں اور اس بات کا ان نااہل حکمرانوں کو ڈھائی سال کے بعد بھی معلوم نہیں ہوا ہے۔ کلاسز میں بچوں کو تعلیم دینے کا کوئی نعم البدل نہیں ہے البتہ ہم نے آن لائن کلاسز، مائیکرو سوفٹ، ٹی وی چینل اور ایف ایم ریڈیو کی مدد سے بچوں کو تعلیم دینے کی کوشش جاری رکھی ہوئی ہے اور اگر ہم اس میں 50 فیصد بھی کامیاب ہوجاتے ہیں تو یہ بچوں کے حق میں ہوگا۔ پیپلز پارٹی ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کے لئے میدان خالی نہیں چھوڑے گی جبکہ استعفوں کا فیصلہ پی ڈی ایم کی اعلیٰ قیادت کے اجلاس میں ہوا ہے اور آئندہ کا لائحہ عمل بھی وہی طے کریں گے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے اتوار کے روز اپنے کیمپ آفس میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر پیپلز پارٹی کراچی ڈویژن کے جنرل سیکرٹری محمد جاوید ناگوری اور ڈپٹی انفارمیشن سیکرٹری محمد آصف خان بھی ان کے ہمراہ موجود تھے۔ سعید غنی نے کہا کہ 18 ویں ترمیم کے بعد بہت سے محکمے وفاق سے صوبوں کو۔منتقل ہوگئے ہیں،جس کے بعد صوبائی اسمبلیوں نے قوانین بنائے۔ انہوں نے کہا کہ محکمہ محنت بھی صوبوں کو ملا اور سندھ نے لیبر سے متعلق 16 قوانین بنائے اور ان کو سندھ اسمبلی سے منظور کرایا۔ انہوں نے کہا کہ کچھ انڈسٹریز کی جانب سے اس کے خلاف ہائی کورٹ میں کیس دائر کیا گیا اور ہائی کورٹ نے بھی سندھ اسمبلی کے قوانین کے حق میں فیصلہ دیا، جس پر اب یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زید التواء ہے۔ سعید غنی نے کہا کہ جب تک یہ معاملہ زیر التواء ہے ہائی کورٹ کے فیصلے کے تحت ہمارے قوانین درست ہیں اور ہم اسی پر عمل پیراء ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب ایف بی آئی کی جانب سے ایک آڈٹ فرم کو غیر آئینی اور غیر قانونی طریقے سے خط لکھ کر ورکر ویلفئیر فنڈ اور ای او بی آئی کو وفاقی حکومت کے زیر انتظام ہونے کا کہا گیا ہے۔ سعید غنی نے کہا کہ اس حوالے سے سی سی آئی میں جب یہ اشیو گیا تو وہاں ایک کمیٹی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا کی چیئرمین میں بنائی گئی، جس میں وزیر اعلیٰ سندھ نے مجھے بھیجا تھا اور ہم نے اس سلسلے میں سندھ کی بھرپور نمائندگی کرتے ہوئے اپنے قوانین سمیت دیگر سین آگاہ کیا جبکہ اس اجلاس میں پنجاب اور بلوچستان نے بھی ہمارے موقف کو تسلیم کیا اور اس وقت وفاق کے پاس ورکرز ویلفئیر فنڈز کے 172 ارب روپے میں سے 124 ارب روپے ہونے کا وفاق نے تسلیم بھی کیا تاہم جب اس مٹینگ کی رپورٹ سی سی آئی میں پیش کی گئی تو وہ اس کے برعکس پیش کی گئی، جس پر سندھ اور پنجاب دونوں نے اس پر اپنا آئینی حق استعمال کرتے ہوئے کہا کہ یہ منٹس غلط ہیں اور اب ہم اس کو عدالت میں بھی چیلنج کرنے جارہے ہیں، جس کی وزیر اعلیٰ سندھ نے منظوری بھی دے دی ہے۔ سعید غنی نے کہا کہ 18 ترمیم کے بعد ورکرز ویلفیئر فنڈز اور ای او بی آئی صوبائی معاملہ ہے اور وفاق کو صوبوں کو جو شئیر اور اثاثے دینا ہیں وہ یہ دینا نہیں چاہتے اور اسی لئے انہوں نے غیر قانونی اور غیر آئینی طور پر ای او بی آئی اور ورکر ویلفئیر فنڈز پر قبضہ کیا ہوا ہے۔ سعید غنی نے کہا کہ اگر کے پی کے اور بلوچستان اپنا قانون نہیں بنا سکے تو سندھ اور پنجاب کا کیا قصور ہے؟ انہوں نے کہا کہ ایک غیر منتخب، دوہری شہریت کا حامل اسپیشل اسسٹنٹ صوبوں کے اختیارات کو سلب نہیں کر سکتا۔اس غیر آئینی عمل کو فوری روکا جائے اس کو ہم مکمل طور پرمستردکرتے ہیں۔ایک سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ بروقت ایل این جی نہ خریدنے کے باعث اب تک اس قوم کو122 ارب کا اس نااہل اور نالائق حکومت نے ٹیکہ لگا دیا ہے اور مزید ایل این جی کی بروقت خریداری نہ کرنے سے 20 ارب کو ٹیکہ لگایا گیا ہے اور اب یہ 140 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ پچھلی بار گیس کا بحران ہوا تو بولے سندھ حکومت زمے دار ہے، کیونکہ انہوں نے 17 کلومیٹر کی لائن ڈالنے کی اجازت نہیں دی، اب تو نہ صرف اجازت بلکہ لائن بھی ڈل گئی ہے اور صورتحال آج یہ ہے کہ کراچی میں لوگوں کے گھروں کے چولہے بند بڑے ہیں اور آج بھی پورے ملک میں گیس کا بحران ہے۔ ایک سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ یہ نالائق حکمران اتنے نااہل ہیں کہ جس کو ٹھیک کرنے کو کہتے ہیں وہ برباد ہوجاتی ہے۔ انہوں نے ایک کروڑ نوکریاں دینی تھیں اسٹیل ملز سے لوگ نکال دئیے، پی ٹی وی اور ریڈیو سے لوگ نکال دئیے۔اب تو صرف یہ دعا ہے کہ یہ اللہ کے واسطے ملک کی جان چھوڑ دیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم دعا کرتے ہیں کہ کوووڈ 19 کے ساتھ ساتھ اللہ ہماری اس کوووڈ 18 سے بھی جان چھڑائے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ان کو آئین اور قانون کا کچھ نہیں پتہ۔ ڈھائی سال سے یہ سمجھ رہے ہیں کہ وفاق صوبوں کو پالتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ صوبے وفاق کو پالتے ہیں،صوبے کماتے ہیں تو وفاقی ادارے چلتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ پیسہ انکی جاگیر نہیں ہے۔ تعلیمی اداروں کی بندش اور آن لائن تعلیم کے سوال کے جواب میں وزیر تعلیم و محنت سندھ سعید غنی نے کہا کہ جو بچے کلاس روم میں تعلیم حاصل کرتے ہیں اس کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔ ہمارے پاس تصور نہیں تھا کے اس طرح کے حالات ہوں گے۔مجبوری کی حالت میں آن لائن کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔بہت سے علاقوں میں انٹرنیٹ نہیں ہے۔ ہم نے بہت سے نظام متعارف کروائے ہیں، پھر بھی 100 فیصد بچوں تک ہماری پہنچ نہیں ہوگی۔ ضمنی الیکشن میں حصہ لینے کے سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ پی ڈی ایم میں فیصلہ ہوا کے تمام سیاسی جماعتوں کے ارکان اسمبلی قیادت کو استعفے جمع کروائیں،ہم نے قیادت کو استعفے پیش کر دئیے ہیں۔ ضمنی انتخاب آئینی تقاضہ ہے جو ہونے چائیے ہیں۔میری رائے میں ہمیں ضمنی انتخاب میں حصہ لینا چائیے،تاکہ پتہ چلے کے لوگ پی ٹی آئی کو اب پسند نہیں کرتے۔کراچی میں وفاق کی جانب سے ترقیاتی کاموں کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ کراچی میں گرین لائن سمیت دیگر تمام منصوبے نواز شریف کے دور کے تھے۔یہ نالائق ساری چیزیں اپنے کریڈٹ پر لیتے ہیں۔ ان نالائق، نااہل اور سلیکٹیڈ حکومت نے کراچی میں ایک روپے کا بھی نیا کوئی منصوبہ نہیں دیا ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here