ہم نے تو دل جلا کر سرراہ رکھ دیا اب جس کے جی میں آئے و ہ پائے روشنی

0
1631

تحریر: سید محبوب احمدچشتی
پاکستان کی سیاست میں آجکل کوروناوائرس نے سب کو مصروف رکھا ہوا ہے لیکن اس عالمی تناظر میں ممکنہ جغرافیائی تبدیلی کے مستقبل میں کیا اثرات مرتب ہونگے اسکو بھی کسی دن زیر موضوع لائینگے لیکن پاکستان کی لوکل سیاست خصوصا شہرقائد کے حوالے سے سربراہ ایم کیوایم پاکستان میں ڈاکٹرخالد مقبول صدیقی کی وزارت کے حوالے سے قیاس آرائیاں اپنے عروج پر ہیں جس وقت ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے اپنی وزرات چھوڑنے کے حوالے سے پریس کانفرنس کی تو راقم الحروف نے ان سے یہ سوال کیا تھا کہ حکومت کے ساتھ معاملات بہتر ہونے پر کیا آپ واپسی کا فیصلہ کرسکتے ہیں؟ تو سربراہ ایم کیوایم پاکستان خالد مقبول صدیقی کا کہنا تھا کہ ہم نے حکومت سے باہر نہیں آئے وزرات سے باہر آئے اور جب بھی ہم حکومت میں واپس گئے تو میں وزیر نہیں ہونگا ۔لیکن اس فیصلے کے پس منظر میں سیاسی مثبت طرز فکر کا استعمال کرتے ہوئے غیر جانبدارانہ تجزیہ کیا جائے اور فطری تقاضوں کو بھی مدنظر رکھا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ ایک سربراہ حثیت سے انکے پاس آئی ٹی کی وزرات تھی جو کہ اسلام آباد میں تھی اور انکو ایک آئی ٹی وزیر کی حثیت سے مسلسل اسلام آباد میں رہنے سے اپنے تنظیمی معاملات کی امور کی انجام دہی میں کچھ مشکلات پیش کا سامنا کرنا پڑرہا تھاخیر کراچی میں فلاحی کاموں کی مختلف امور کی انجام دہی خدمت خلق فائونڈیشن کا فعال کردار چند ہفتوں میں سامنے آنے سے اس تاثر کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے خالد مقبول صدیقی نے یہ قربانی ایسے ہی نہیں دی بلکہ تحریکی امور ودیگر معاملات پر اپنا مکمل دھیان اور انکو حل کرنے کے لیئے اسلام آباد کی وزرات واپس کی ہے اس تمام صورتحال میں ایم کیوایم پاکستان کافلاحی کردار کو کسی انداز سے مختلف تحفظات رکھنے کے باوجود بھی نظراندازکرنا آسان نہیں ہوگا
اب یہ مشورہ کس کا تھا کہ آئی ٹی کی وزرات سربراہ خالد مقبول صدیقی کو دی جائے تاکہ وہ اسلام آباد میں ہی زیادہ مصروف نظرآئیں پی ٹی آئی کو چاہیئے تھا کہ وہ کراچی میں کو ئی وزرات دیتے تو انکی نیک نیتی ظاہر ہوتی لیکن بہرکیف ایسا نہیں ہوا تحریک انصاف بھی اپنے اقتدار کی خاطر عارضی مرکز بہادر آباد چکر لگاتی رہی خیر یہ کوئی نئی بات نہیں پاکستان کی تاریخ کا کوئی ایسا کردار نہیں ہوگا جس نے ان سب سے اپنے اقتدار کی امان وتسلسل کو جاری رکھنے کے لئیے ایم کیوایم پاکستان کے دروازے پر نہیں آئے،خیر یہ بھی حیران کن ہے کہ انتہائی کم سیٹ جیتنے کے باوجود ایم کیوایم پاکستان وفاق کو بھاری پڑ رہی ہے ایم کیوایم پاکستان کو قابو کرنا اب زیادہ مسلئہ بھی نہیں رہا بس دو چار چھوٹے موٹے بڑے الزامات لگادو ،میڈیا ٹرائل کردو آپس میں گروپنگ کروادیں،پرانے الزامات کو نئے تیل میں پکواکر پیش کردیں کردار کشی کردیں ایم کیوایم پاکستان قابو میں آجائیگی لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ سارا ظلم باہر سے ہورہاہے ایم کیوایم پاکستان کو اپنا محاسبہ کرنا بھی اشد ضروری ہے ڈاکٹر خالد مقبو ل صدیقی سربراہ کی حثیت سے وزرات نہ رکھنے سے انکی پوزیشن پہلے سے اور بہتر ہوجائیگی اور اس امکان کو بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے کہ سربراہ کی حثیت سے وہ کچھ منتشر اسٹرکچر کو بہتر بنانے میں اپنا مزید کردار ادا کرسکیں یہ بات بھی بزرگوں سے سنی ہے کہ اچھے ملکوں کے سربراہان کھبی کوئی حکومتی اور عہدہ نہیں رکھتے اچھے سربراہ کھبی کوئی وزرات بھی نہیں رکھتے میری اس بات کو محض اتفاقیہ تناظر میں دیکھا،لکھا ،پڑ ھا اور سمجھا جائے کسی بھی قسم کی تاریخ سے مطابقت آپکی اپنی سوچ کی صوابدید پر منحصر ہے ،اور پھر کسی نہ کیا خوب کہا ہے کہ
ہم نے تو دل جلا کر سرراہ رکھ دیا ۔۔۔۔
اب جس کے جی میں آئے و ہ پائے روشنی۔۔۔
اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ پاکستانی سیاست میں اپنی عقل اپنے ویژن کو کسی نہ کسی پاس گروی رکھوانا پڑتا ہے اب یہ منحصر آپ پرہے اسکو کسی تجوری میں رکھوائیں یا مجبوری وخوف کے ڈبے میں رکھ کر سیاست کریں پاکستانی تمام سیاست دان ایک کا دو ایک تین چار کرتے ہوئے اپنی سیاسی بقاکی جنگ لڑ رہے ہیں لیکن شہر کراچی وحیدرآباد میرپور خاص ،نواب شاہ،سکھر،سمیت سندھ کی سیاست پورے ملک کی سیاست سے کچھ الگ الگ ہے سانحات سے گزرتی ،تقسیم کرو اور حکومت کرو کے فارمولے کا شکارہوتی ہوئی مختلف ڈھروں میں بٹی ایم کیوایم پاکستان کے پاس آپشن کم ہونے کیوجہ سے دوسری سیاسی جماعتیں زیادہ مضبوط ہیں اور لاکھ کوئی اس حقیقت سے نگاہیں چرالے یہ پتھرپرلکھی تحریر ہے کہ شہرقائد کی مقامی سیاسی جماعتیں کسی نہ کسی تقسیم کا ہی نتیجہ ہے دوسری جانب شہر کراچی کی سیاست میں کوروناوائرس کی تشریف آوری سے پہلے حیران کن آمد مسلم لیگ (ن) کااعلیٰ سطع کا وفد جو سابق وزیراعظم خاقان عباسی،احسن اقبال ،مریم اورنگزیب،مصدق ملک ،اور کراچی میں موجود مسلم لیگ کی قیادت پر مشتمل تھا وفد ایم کیوایم پاکستان کے عارضی مرکز بہادر آباد اور تنظیم بحالی ایم کیوایم پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار کے گھر آیا اور ماضی کے تلخ ترین تجربات کو پس پشت ڈالتے ہوئے دونوں طرف کے رہنمائوں نے اپنے کارکنان کووسیع القلبی کی ہدایت جاری کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے وفد کو بھرپور طریقے سے خوش آمدید کہا او ر پھر (ن) لیگ کے وفد نے صحافیوں کے تیز و تند تلخ سوالوں کے جواب دینے کی کوشش کی ،پریس کانفرنس کے وقفہ سوالات وجوابات کے دوران جب میں نے یہ سوال کیا کہ ماضی میں جب بھی مسلم لیگ (ن) کی حکومت آئی ایم کیوایم کے ڈھرے بن گئے کیا آپ مستقبل کی یہ یقین دھانی کروانے آئے ہیں کہ ایسا اب دوبارہ ایسا نہیں ہوگا خیر اس سوال کا جواب سیاسی ہی آنا تھا کہ ہم یہاں سب کو جوڑنے آئے ہیں کیونکہ باقی سوال کا جواب یوں آسان تھا کہ ڈاکٹر فاروق ستار کا ناشتہ بلاشبہ پرتکلف تھا جوصوبے پنجاب کی روایتوں اور اسکے مزاج کو سمجھتے ہوئے رکھا گیا تھا مسلم لیگ (ن) کے اہم رہنمائوں کی دونوں طرف آمد کا تجزیہ کرنے ہی لگے تھے کہ کورونا وائرس پھر لاک ڈائون کی صورتحال میں یہ ممکن نہیں رہا لیکن یہ طے ہے کہ ان دوروں کے سیاسی اثرات مستقبل میں کیا ہوسکتے ہیں اس پر قلم کو انشاء اللہ پھر جنبش دینگے،شہر کراچی کی سیاست میں ایم کیوایم پاکستان سمیت کس بھی مقامی جماعت کے کردار کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں ہے بحالت مجبوری کہہ لیں یا کوئی بھی نام دے دیں اس شہر میں فلاحی کام ذور وشور سے انتہائی محنت سے ہورہا ہے ایم کیوایم پاکستان ،پاک سرزمین،ڈاکٹرفاروق ستار ،سمیت ایک دوسرے پر نشتر بازی کررہے ہیں لیکن یہ اچھا ہورہا کہ فلاحی کام کا کہیں رک نہیں رہا ہے بلدیہ شرقی ،بلدیہ وسطی ، ویسٹ ساوتھ سمیت منتخب چیئرمینزاس صورتحال میں اپنا کام کررہے ہیں سندھ حکومت کے کردار کو بھی نطرانداز نہیں کرسکتے کہ لاک ڈائون کا ابتدائی فیصلہ لیکر وفاق کو کسی نہ کسی انداز میں مجبور کیا لیکن اب مزید لاک ڈائون نہیں ہونا چاہیئے ورنہ بہترصورتحال بدترین صورتحال میں تبدیل ہوسکتی ہے

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here