پلی بارگین کرپشن کوفروغ دینے کے مترادف ہے،میں انفرادی طور پر پلی بارگین کا سخت مخالف ہوں۔ ڈاکٹر خالد عراقی

0
1843

پاکستان میں پیسے کی کمی نہیں ہے لیکن جو فنڈز فراہم کئے جاتے ہیں وہ استعمال نہیں ہوتے بلکہ سرکاری افسروں اور سیاستدانوں میں تقسیم ہوجاتے ہیں ۔ڈپٹی ڈائریکٹر نیب کراچی
جامعہ کراچی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود عراقی نے کہا کہ ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور پر اس بات کا جائزہ لینے کی اشد ضرورت ہے کہ ہمارے معاشرے میں کرپشن پھیلنے کی وجوہات کیا ہیں۔پلی بارگین کرپشن کوفروغ دینے کے مترادف ہے،میں انفرادی طور پر پلی بارگین کا سخت مخالف ہوں،میں دنیا کہ بیشتر ممالک کے قوانین کا بغورمطالعہ کرچکا ہوں اور مجھے کہیں بھی پلی بارگین کی شق نظر نہیں آئی اور نہ ہی ایسا کوئی قانون ہے جو مجرموں کو سہولتیں فراہم کرتاہو۔بدقسمتی سے کرپشن کو جڑ سے ختم کرنے کے لئے بڑے پیمانے پر سنجیدہ کوششیں نہیں کی گئیں ہیں۔ہمیں یہ بھی دیکھنا چایئے کہ نیب کا قیام جس مقصد کے لئے عمل میں لایاگیا تھا اور کیا واقع عملی طور پر وہ کام کررہاہے جس کے لئے اس کا وجود عمل میں لایا گیا۔دنیا بھر میں کرپشن کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے اور کرپشن کے حوالے سے قوانین بھی موجود ہیں مگر پلی بارگین جیسی شق ان قوانین کا حصہ نہیں ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے دفتر مشیر امورطلبہ جامعہ کراچی کے زیر اہتمام اور آفس آف ریسرچ اینوویشن اینڈ کمرشلائزیشن جامعہ کراچی کے اشتراک سے کراچی یونیورسٹی بزنس اسکول کی سماعت گاہ میں منعقد سیمینار بعنوان: ”کرپشن کے خلاف نوجوانوں کا کردار“ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
ڈاکٹر خالد عراقی نے مزید کہا کہ وہ عناصر جو کرپشن میں ملوث ہیں وہ اس بات کا بخوبی ادراک رکھتے ہیں کہ قوانین میں موجود ابہام کی وجہ سے وہ پکڑے نہیں جائیں گے اور اگر پکڑے بھی گئے ضمانت حاصل کرنا زیادہ مشکل نہیں جو کرپشن کو جڑ سے ختم کرنے میں ایک بڑی رکاﺅٹ ہے۔ہم ریفارمز کی باتیں تو بہت کرتے ہیں مگر تاحال ایسی کوئی تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی جس سے معاشرے میں بہتری آئی ہو۔
ڈپٹی ڈائریکٹر نیب کراچی صلاح الدین مغل نے کہا کہ ہم ایک دوسرے پر الزامات لگاتے ہیں کہ کرپٹ کون ہے سیاستدان بیورکریٹس پرکرپشن کا الزام لگاتے ہیں جبکہ بیوروکریٹس سیاستدانوں پر، کوئی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں لیکن درحقیقت ہم سب ایک کشتی میں سوار ہیں جس کو جہاں موقع ملتا ہے وہ کرپشن میں شامل ہوتا ہے۔ہمارے یہاں کوئی ترقیاتی کام نہیں ہوتے ،پاکستان میں پیسے کی کمی نہیں ہے لیکن جو فنڈز فراہم کئے جاتے ہیں وہ استعمال نہیں ہوتے بلکہ سرکاری افسروں اور سیاستدانوں میں تقسیم ہوجاتے ہیں ۔جس کا م کے لئے فنڈز دیئے جاتے ہیں پورے پورے فنڈز کرپشن کی نظر ہوجاتے ہیں صرف دکھاوے کے لئے تھوڑابہت کام کیا جاتا ہے ۔یہ آپ سب کی ذمہ داری ہے کہ آپ اس طرح کے فنڈ ز سے بننے والے منصوبوں میں اگر آپ کو کوئی خامی نظر آئے تو اس کی نشاندہی کریں۔آپ کرپشن کا حصہ بننے کے بجائے اس کے خلاف آواز اٹھائیں ۔جب تک آپ لو گ اس کی نشاندہی کرکے اس خلاف آواز نہیں اُٹھائیں گے ہم آگے نہیں بڑسکتے ۔
انہوں نے مزید کہا کہ آج اگر ہم اپنی نوجوان نسل کا انڈیا اور بنگلہ دیش سے موازنہ کرتے ہیں تووہ ہم سے بہت آگے ہیں ، دنیا کے کسی بھی شعبہ میں آپ جاکر دیکھیں انڈین اور بنگلہ دیشی ہم سے بہت آگے ہیں۔ان کے پاس بھی کرپشن اور غربت ہے لیکن وہاں کا سسٹم بہتر ہے ۔انہوں نے تعلیم کے شعبہ کو اپنی اولین ترجیحات میں سرفہرست رکھا ہے۔ہمارے نوجوانوں میں بھی صلاحیتوں کی کمی نہیں ہے لیکن ہم نے تعلیم پر توجہ نہیں دی ۔
انہوں نے طلبہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اپنی تعلیم پر توجہ دیں اور اپنی فیلڈ میں اتنی مہارت حاصل کریں کہ دنیا کی جتنی سرفہرست پوزیشنز ہیں وہاں آپ پہنچیں وہاں تک پہنچنے پر آپ اپنے ملک اور خاندان کا نام روشن کرنے کے ساتھ ساتھ جو زرمبادلہ پاکستان بھجوائے گے اس سے پاکستان کی معیشت میں بھی بہتری آئے گی۔نوجوان نسل کرپشن کوکم کرنے میں اہم کردار اداکرسکتی ہے ۔آپ اگر اپنے کسی رشتہ دار یا عام آدمی جس کے پاس اس کے ذرائع آمد ن سے زائد گاڑیاں یا بنگلے ہوں اورآپ کو پتہ ہو کہ وہ اپنی آمد ن سے اتنی گاڑیاں اور بنگلے نہیں خرید سکتا اس کی نشاندہی کریں اور کمپلین کریں آپ کی ایک درخواست پر ہم اس سے پوچھیں گے کہ آپ کے پاس تنی رقم کہا ں سے آئی یہ ہماراکام ہے۔
مشیر امورطلبہ جامعہ کراچی ڈاکٹر سید عاصم علی نے کہا کہ معاشرے میں بہتری لانے کے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم آج کی نوجوان نسل کو یہ حوصلہ فراہم کریں کہ وہ اگر کسی کرپٹ پریکٹس کی نشاندہی کرتے ہیں تو ادارے ان کی نشاندہی کو سنجیدگی سے لیں اور ضروری کاروارئی کریں ۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here