کرونا وائرس یا کورونا وائرس

0
1598

 

 

تحریر۔ نازیہ علی
کسی بھی وائرس یا بیماری کے پھیلنے یا بڑھنے کے پیش نظر احتیاطی تدابیر اختیار کرنا ضروری ہوتا ہے مگر بغیر تصدیق کے صحیح یا غلط ٹوٹکے، مشورے اور علاج کے طریقے واٹس اپ یا انٹرنیٹ کے ذریعے لوگوں میں پھیلانا عقلمندی نہیں بلکہ گناہ اور جرم بھی ہے۔ایسے ہی کچھ عجیب واقعات اور حرکتیں پاکستان میں کورونا وائرس کی آمد پر دیکھنے کو ملے۔اللہ تعالی’ نے ہر انسان کی موت کی کوئی وجہ تو منتخب کی ہوتی ہے اسلئے جب ہم دیگر وجوہات پر اتنا خوفزدہ نہیں ہوتے بلکہ احتیاط کرتے ہیں تو بالکل اسی طرح کورونا وائرس بھی ہے۔آج میں کورونا وائرس کے بارے میں ملکی صورتحال اور اپنی تحقیق کے ذریعے کچھ خاص اور اہم معلومات آپ سب کو مہیا کرنا چاہتی ہوں جس میں کچھ معلومات ویکیپیڈیا اور بی بی سی کی مختلف رپورٹس سے بھی جمع شدہ ہے تاکہ اس ایک ہی کالم کے ذریعے آپ سب تک کورونا وائرس کی آگہی پہنچ جائے اور ہر انسان خود اپنا اور اپنے اہل خانہ کا خیال رکھ سکے۔کورونا وائرس یا کرونا وائرس (انگریزی:Coronavirus) ایک وائرس گروپ ہے جس کے جینوم کی مقدار تقریباً 26 سے 32 زوج قواعد تک ہوتی ہے۔ یہ وائرس ممالیہ جانوروں اور پرندوں میں مختلف معمولی اور غیر معمولی بیماریوں کا سبب بنتا ہے، مثلاً: گائے اور خنزیر کے لیے اسہال کا باعث ہے۔اسی طرح انسانوں میں سانس پھولنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ عموماً اس کے اثرات معمولی اور خفیف ہوتے ہیں لیکن بعض اوقات کسی غیر معمولی صورت حال میں مہلک بھی ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاج یا روک تھام کے لیے اب تک کوئی تصدیق شدہ علاج یا دوا دریافت نہیں ہو سکی ہے۔
کورونا (corona) لاطینی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی تاج یا ہالہ کے ہوتے ہیں۔ چونکہ اس وائرس کی ظاہری شکل سورج کے ہالے یعنی کورونا کے مشابہ ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے اس کا نام “کورونا وائرس” رکھا گیا ہے۔
سب سے پہلے اس وائرس کی دریافت 1960 کی دہائی میں ہوئی تھی جو سردی کے نزلہ سے متاثر کچھ مریضوں میں خنزیر سے متعدی ہوکر داخل ہوا تھا۔ اس وقت اس وائرس کو انسانی کرونا وائرس E229 اور OC43 کا نام دیا گیا تھا۔ اس کے بعد اس وائرس کی اور دوسری قسمیں بھی دریافت ہوئیں۔
عالمی ادارہ صحت کے ذریعہ نامزد کردہ nCov-2019 نامی کورونا وائرس کی ایک نئی وبا 31 دسمبر 2019ء سے چین میں عام ہوئی۔ جو آہستہ آہستہ وبائی شکل اختیار کر چکی ہے۔ یہ وائرس اس لیے خطرناک ہے کہ یہ انسان سے انسان کے درمیان میں پھیلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔25 جنوری 2020 ء کو چین کے 13 شہروں میں ایمرجنسی لگا دی گئی ہے جبکہ وائرس کی شناخت یورپ سمیت کئی دوسرے ممالک میں بھی ہو چکی ہے۔کورونا وائرس بنیادی طور پر ممالیہ جانوروں اور پرندوں کے نظام تنفس اور انسانوں کے نظام ہضم کو متاثر کرتا ہے۔اس وائرس کے ذریعہ انسانوں کو ہونے والی بیماریوں کی اس وقت 4 سے پانچ قسمیں ہیں۔ سب سے زیادہ پائی جانے والی قسم “انسانی کورونا سارس CoV” ہے جو سارس بیماری کا ذریعہ بنتا ہے۔ یہ بالکل منفرد قسم کی بیماری ہے۔ اس سے اوپری اور نچلے دونوں نظام تنفس یکساں متاثر ہوتے ہیں اور بعض اوقات آنت اور معدے کا نمونیا ہو جاتا ہے۔ یہ مانا جاتا ہے کہ کورونا وائرس عام طور پر بالغ افراد کو سردی کے نزلہ کی وجہ سے سب سے زیادہ لاحق ہوتا ہے۔عام سردی میں ہونے والے نزلہ کی طرح کورونا وائرس کے اثر کا اندازہ لگانا مشکل ہے کیونکہ وہ ناک وائرس “عام سردی کا نزلہ” کے برعکس ہوتا ہے۔ اسی طرح لیبارٹری میں انسانی کورونا کی تحقیق و نشو و نما بھی مشکل ہے۔ کورونا نمونیا، وائرس نمونیا یا تو براہ راست یا ثانوی جرثومی نمونیا کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ مرغیوں میں متعدی برونکائٹس وائرس (IBV) نہ صرف نظام تنفس میں اثر انداز ہوتے ہیں بلکہ پیشاب کے راستہ کو بھی متاثر کرتے ہیں اور اس کا امکان رہتا ہے کہ یہ وائرس مرغی کے تمام اعضا میں پھیل جائے۔
اسی طرح کورونا وائرس کھیت کے جانوروں اور پالتو جانوروں میں بھی بہت سی بیماریوں کا ذریعہ بنتا ہے، جس میں کچھ خطرناک ہوتی ہیں اور کھیتی کو بھی نقصان پہنچا دیتی ہیں۔ کورونا وائرس عام طور پر گائے اور خنزیر دونوں پالتو فارمی جانوروں کو ہوتا ہے اور ان دونوں میں اسہال کا سبب بنتا ہے۔کورونا وائرس کو جراثیموں کی ایک نسل Coronaviridae کا حصہ قرار دیا جاتا ہے جو مائیکرو اسکوپ میں یہ نوکدار رنگز جیسا نظر آتا ہے اور نوکدار ہونے کی وجہ سے ہی اسے کورونا کا نام دیا گیا ہے جو اس کے وائرل انویلپ کے ارگرد ایک ہالہ سے بنادیتے ہیں۔کورونا وائرسز میں آر این اے کی ایک لڑی ہوتی ہے اور وہ اس وقت تک اپنی تعداد نہیں بڑھاسکتے جب تک زندہ خلیات میں داخل ہوکر اس کے افعال پر کنٹرول حاصل نہیں کرلیتے۔ اس کے نوکدار حصے ہی خلیات میں داخل ہونے میں مدد فرہم کرتے ہیں بالکل ایسے جیسے کسی دھماکا خیز مواد سے دروازے کو اڑا کر اندر جانے کا راستہ بنایا جائے۔ایک بار داخل ہونے کے بعد یہ خلیے کو ایک وائرس فیکٹری میں تبدیل کردیتے ہیں اور مالیکیولر زنجیر کو مزید وائرسز بنانے کے لیے استعمال کرنے لگتے ہیں اور پھر انہیں دیگر مقامات پر منتقل کرنے لگتے ہیں، یعنی یہ وائرس دیگر خلیات کو متاثر کرتا ہے اور یہی سلسلہ آگے بڑھتا رہتا ہے۔جیسا کہ پہلے بھی ذکر کیا کہ عموماً اس طرح کے وائرسز جانوروں میں پائے جاتے ہیں، جن میں مویشی، پالتو جانور، جنگلی حیات جیسے چمگادڑ میں دریافت ہوا ہے اور جب یہ انسانوں میں منتقل ہوتا ہے تو بخار، سانس کے نظام کے امراض اور پھیپھڑوں میں ورم کا باعث بنتا ہے۔
ایسے افراد جن کا مدافعتی نظام کمزور ہوتا ہے یعنی بزرگ یا ایچ آئی وی/ایڈز کے مریض وغیرہ، ان میں یہ وائرسز نظام تنفس کے سنگین امراض کا باعث بنتے ہیں۔کورونا وائرس کا کوئی خاص تصدیق شدہ علاج یا دوا نہیں ہے البتہ چند احتیاطی تدابیر بتائی جاتی ہیں۔صابن یا پانی سے بار بار ہاتھ دھونا۔گندے ہاتھوں سے ناک، آنکھ اور منھ کو چھونے سے گریز کرنا۔متاثرہ افراد سے براہ راست اور ان کی استعمال شدہ چیزوں سے دور رہنا۔کورونا وائرس سے دنیا بھر میں ہلاکتوں کا سلسلہ افسوسناک ہے چین کی جانب سے 42 نئی ہلاکتوں کی تصدیق کی بعد دنیا بھر میں کورونا وائرس کی وجہ ہونے والی اموات کی تعداد 3000 سے تجاوز کر گئی ہے۔ان میں سے 90 فیصد اموات چین کی صوبے ہوبائی میں پیش آئیں جہاں گذشتہ دسمبر میں اس وائرس کی سب سے پہلے تشخیص ہوئی۔وائرس دنیا میں پھیلنے کے بعد چین کے علاوہ دس ممالک میں بھی ہلاکتیں ہوئی ہیں جس میں اٹلی میں 30 اور ایران میں اب تک 50 کی تصدیق ہوئی ہے۔عالمی طور پر اب تک کورونا وائرس کے 90 ہزار کیسز سامنے آئے ہیں اور چین سے باہر یہ زیادہ تیزی سے پھیل رہا ہے۔ تاہم عالمی ادارہ صحت کے مطابق زیادہ تر مریضوں کی علامات میں شدت نہیں ہے اور کورونا وائرس سے پیش آنے والی اموات کی شرح بھی پانچ فیصد سے دو فیصد پر آ گئی ہے۔اس وقت کورونا وائرس انٹارکٹکا کے علاوہ تمام براعظموں میں موجود ہے اور پہلی مرتبہ یہ چین سے باہر زیادہ تیزی سے پھیل رہا ہے۔بڑے شہر جہاں زیادہ لوگ رہتے ہیں اور ایک ساتھ کام کرتے ہیں وہاں وبا پھوٹنے کا امکان زیادہ ہے۔کوشش کر رہی ہوں کہ آپ سب کے سامنے دنیا بھر میں بڑے شہروں کو درپیش مسائل کو مختصر طور پر بیان کر سکوں اور ساتھ ہی یہ بھی اندازہ لگائیں کہ ان تمام بڑے ممالک اور شہروں نے ان مسائل سے نمٹنے کے لیے کیا اقدام اٹھائے۔پبلک ٹرانسپورٹ وائرس کے پھیلاؤ کے لیے موزوں ماحول فراہم کرتی ہے۔جب کسی کو کھانسی یا چھینک آنے کے بعد پبلک ٹرانسپورٹ کی مشترکہ سطحوں پر ناک یا منھ سے نکلنے والا ریشہ گرتا ہے تو یہ بنیادی طور پر وائرس کے پھیلنے کا سبب بنتا ہے۔انفلوئنزا کے بارے میں کی گئی ریسرچز کے مطابق نزلہ زکام کے موسم میں پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرنے والے افراد کو سانس سے جڑی انفیکشن لگنے کا امکان چھ گنا تک بڑھ جاتا ہے۔یہ ہی وجہ ہے کہ جنوبی کوریا سے لے کر اٹلی اور ایران تک حکام نے ریل گاڑیوں، بسوں اور اسٹیشن کے اندر بڑے پیمانے پر صفائی کا حکم دیا ہے۔ایسی تقریبات جہاں لوگ جوق در جوق آتے ہیں وہاں وائرس پھیلنے کا ممکنہ خدشہ ہوتا ہے اور ایسی جگہیں پہلے سے ہی کورونا وائرس سے متاثر ہو رہی ہیں۔کورونا وائرس پھیلنے کی وجہ سے شنگھائی میں ہونے والی چینی فارمولا ون گرینڈ پری ملتوی کر دی گئی۔چھٹی ایشیئن چیمپیئن لیگ گیمز بھی ملتوی کر دی گئیں۔ ان میں چار ایرانی ٹیمیں شرکت کر رہی تھیں۔
یورپ میں رگبی اور فٹبال کے میچ جس میں اطالوی ٹیمیں شرکت کر رہی ہیں، التویٰ کا شکار ہو گئے۔
لیکن عالمی کھیلوں کے کیلنڈر میں سب سے بڑی رکاوٹ ٹوکیو اولمپکس میں ہو سکتی ہے جن کا آغاز 24 جولائی کو ہونا ہے۔ابھی تک اولمپک سے پہلے جاپان میں مختلف ثقافتی مقامات پر ٹارچ جلا کر سفر کرنے والی تقریب کو مختصر کرنے کا کہا گیا ہے لیکن انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی نے کورونا وائرس کے بہت زیادہ پھیلنے کی صورت میں اولمپک گیمز کو منسوخ کرنے سے انکار نہیں کیا۔کھیلوں کے علاوہ مذہبی تقریبات پر بھی پابندیاں لگائی گئی ہیں۔سعودی عرب کی حکومت کے اعلان کے مطابق مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں غیر ملکی زائرین کا داخلہ معطل کر دیا گیا ہے۔زیادہ سے زیادہ حکومتیں اپنے اسکولوں کو کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے منصوبے بنانے کا مشورہ دے رہی ہیں۔جاپان، تھائی لینڈ، ایران اور عراق جیسے ممالک میں اسکول اور یونیورسٹیاں عارضی طور پر بند کر دی گئی ہیں۔جبکہ اس میں پاکستان کا صوبہ سندھ بھی اسکول بند کرنے میں شامل ہے امریکہ اور برطانیہ میں اسکول بند کرنے کی تجویز نہیں دی لیکن برطانیہ میں چار اسکولوں نے گہری صفائی کے پیشِ نظر تمام کلاسیں منسوخ کر دیں کیونکہ اسکول کے طلباء اٹلی سے اسکیئنگ کر کے واپس آئے تھے۔
ایسے والدین جنہوں نے حال ہی میں اپنے بچوں سمیت ایران، چین، ہانگ کانگ، جنوبی کوریا، جنوب مشرقی ایشیا اور شمالی اٹلی کا سفر کیا ہے۔ انھیں گھر رہنے اور بچوں کو اسکول نہ بھیجنے کی تاکید کی گئی ہے۔کورونا وائرس دنیا کے سب سے اہم ٹیکنالوجی کے مراکز میں کاروباری طریقوں کو متاثر کر رہا ہے۔امریکی شہروں سان ڈیاگو اور سان فرانسسکو میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے اور دفاتر میں کام کرنے والے ملازمین کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ کمپنی میں آنے اور ملاقات کرنے والوں کے ساتھ ہاتھ نہ ملائیں۔
فیس بُک نے مارچ میں ہونے والی ایک سالانہ مارکیٹنگ کی کانفرنس منسوخ کر دی ہے اور سان فرانسسکو میں ہونے والی دنیا کی بڑی سائبرسکیورٹی کانفرنس میں سے بڑے سپانسر اور نمائش کنندگان نے حصہ لینے سے انکار کر دیا ہے۔
امریکی سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن نے ہدایت نامہ جاری کیا ہے جس میں آجروں کو تجویز دی گئی ہے کہ وہ ملازمین کے گھر سے کام کرنے کی حوصلہ افزائی کریں خاص طور پر اگر انکو بخار ہو یا سانس کی تکلیف جیسی علامات ہوں۔مریکی حکام کے مطابق اچھی طرح سے ہاتھ دھونے جیسے اقدامات کی اہمیت کے بارے میں عوامی شعور میں اضافہ کرنا کورونا وائرس کی منتقلی کے خلاف جنگ کا ایک اہم حصہ ہے۔چونکہ کورونا وائرس کا کوئی علاج نہیں ہے اس لیے ہسپتال علامات کو دور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔مریضوں کو قرنطینہ میں رکھنے کی تاکید کی گئی ہے جبکہ طبی عملے کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ ممکنہ کیسز سے نمٹتے ہوئے حفاظتی لباس پہنیں۔
امریکی اور برطانوی حکام نے پیشنگوئی کی ہے کہ اگر کورونا بڑے پیمانے پر پھیلتا ہے تو ہسپتالوں کو غیرفوری پروسیجرز کو ملتوی کرنا پڑے گا اور فون پر علاج میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ایک اور تشویش بھی سامنے آئی ہے کہ مریضوں کی بڑھتی تعداد سے ہسپتال کیسے نمٹ پائیں گے جبکہ پہلے سے ہی وہ اپنی تمام تر سروسز فراہم کر رہے ہیں۔برطانیہ میں متاثرہ علاقوں سے آنے وانے افراد کو خود کو قرنطینہ میں رکھنے کا کہا جا رہا ہے۔کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے مرکز، چین کے شہر ووہان اور شمالی اٹلی کے زیادہ متاثرہ شہر فی الحال بند ہیں۔
لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ جیسے جیسے وائرس دنیا بھر میں پھیلے گا، ان پابندیوں کا اثر کم ہوتا جائے گا۔باقی جگہوں پر ان پابندیوں کا نفاذ بھی مشکل ہے۔جان ہوپکن سینٹر آف ہیلتھ سکیورٹی کے ڈائریکٹر ٹام انگلزبی نے ٹویٹ کیا ‘شاید بہت کم ممالک شہر ایسے بند کر سکتے ہیں جیسے چین نے کیا۔’
امریکی حکام کے مطابق شہر بند کرنے سے خاندان ایک دوسرے سے کٹ کر رہ جائیں گے، لوگوں تک ادویات، بنیادی خوراک اور اشیا جیسی چیزوں کی فراہمی متاثر ہو گی۔ٹام انگلزبی کہتے ہیں ‘یہ اقدامات ڈاکٹروں، نرسوں اور ہسپتال تک طبی سامان کی فراہمی کی راہ میں رکاوٹ بن سکتے ہیں جیسا کہ چین میں ہوا۔پاکستان کے وزیرِ مملکت برائے صحت ظفر مرزا نے ملک میں کورونا وائرس کے مزید دو کیسز کی موجودگی کی تصدیق کی ہے جس کے بعد پاکستان میں اس وائرس سے متاثرہ افراد کی مجموعی تعداد چار ہو گئی ہے۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں انھوں نے کہا کہ ’میں پاکستان میں کورونا وائرس کے مزید دو نئے کیسز کی تصدیق کر سکتا ہوں۔ ایک (کیس) سندھ میں جبکہ دوسرا فیڈرل ایریاز میں سامنے آیا ہے۔ ان دونوں مریضوں کو کلینیکل پروٹوکول کے مطابق رکھا جا رہا ہے۔اس سے قبل 26 فروری کو پاکستان میں صحت حکام نے ملک میں کورونا وائرس سے متاثرہ دو مریضوں کی موجودگی کی تشخیص کی تھی۔وزیر مملکت برائے صحت ظفر مرزا کے مطابق ابتدا میں سامنے والے دونوں مریض کورونا وائرس کی تشخیص سے 14 دن قبل ایران کا سفر کر چکے تھے۔ تاہم سامنے آنے والے نئے کیسز کے حوالے سے ظفر مرزا کا کہنا تھا کہ ان اشخاص کو کورونا وائرس کہاں سے لگا یہ پتا لگائے جانے کے عمل کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ظفر مرزا پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ پاکستان میں یہ وائرس ایران کے ذریعے آیا ہے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ابتدا میں سامنے والے دو مریضوں میں سے ایک مکمل صحت مند ہونے کے قریب ہے اور اسے جلد ہی ہسپتال سے گھر منتقل کر دیا جائے گا۔پاکستان کے علاوہ دنیا بھر میں تازہ اعداد و شمار کے مطابق کووِڈ-19 سے متاثر ہونے والے اب تک 85 ہزار تصدیق شدہ کیسز سامنے آ چکے ہیں جن میں سے 79 ہزار صرف چین میں ہیں۔ایران میں اب تک مریضوں کی کل تعداد چھ سو کے قریب پہنچ گئی ہے جبکہ سرکاری طور پر ہلاک ہونے والوں کی تعداد 43 بتائی جا رہی ہے۔ صوبہ بلوچستان کے حکام کا کہنا ہے کہ صوبے کے سرحدی شہر تفتان میں گذشتہ دو روز کے دوران ایران سے آنے والے افراد کی مجموعی تعداد 780 ہو گئی ہے۔جس میں بڑی تعداد زائرین کی ہے۔چیف سیکریٹری بلوچستان فضیل اصغر نے وزارت نیشنل ہیلتھ سروسز کے حکام کو ویڈیو لنک کے ذریعے صورتحال پر آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ ایران سے آنے والے ان افراد کو سات روز کے لیے کوارٹین سینٹر میں رکھا جائے گا۔
ایران میں کورونا وائرس کے باعث ہونے والی ہلاکتوں کے بعد بلوچستان کے ایران سے متصل سرحدی علاقوں میں ایمرجنسی نافذ کی گئی تھی تاہم اب افغانستان میں وائرس کے کیسز رپورٹ ہونے کے بعد بلوچستان کے افغانستان سے متصل اضلاع میں بھی ایمرجنسی نافذ کر دی گئی ہے۔
چیف سیکریٹری نے اجلاس کو بتایا کہ صوبائی حکومت وائرس کی روک تھام میں سنجیدہ ہے اور افغانستان سے متصل چمن بارڈر پر روزانہ 20 ہزار سے زیادہ لوگوں کی آمدورفت ہوتی ہے۔خدشات کے پیشِ نظر وفاقی حکومت نے افغانستان کے ساتھ چمن بارڈر کو ابتدائی طور پر سات یوم کے لیے بند کرنے کے احکامات بھی جاری کیے ہیں۔ اس حوالے سے جاری ہونے والے نوٹیفیکیشن کے مطابق یہ اقدام کورونا وائرس کی روک تھام کے پیش نظر اٹھایا گیا ہے اور اس کا اطلاق دو مارچ سے ہوا ہے۔بلوچستان کے حساس اضلاع میں تھرمل گنز اور 231 ایمبولینس بھی موجود ہیں۔اس سے قبل پاکستان کے دفتر خارجہ نے کہا تھا کہ پاکستان کی حکومت ایران میں کورونا وائرس پھیلنے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ نے ایک بیان میں کہا کہ ہم ایران کی حکومت سے مکمل رابطے میں ہیں اور سرحدی علاقوں میں اسکریننگ مزید سخت کر دی گئی ہے۔دفتر خارجہ نے یہ بھی کہا کہ اس معاملے پر بلوچستان اور اسلام آباد میں اعلی سطح پر منصوبہ بندی کی جا رہی ہے اور ’چین اور ایران میں موجود پاکستانی شہریوں کے حق میں مفید ترین فیصلہ کیا جائے گا۔
پاکستان بھر کے مختلف ایئرپورٹس اور بارڈر کراسنگز پر تربیت یافتہ طبی عملہ تعینات ہے اور انھیں تھرمل گن اور تھرمل اسکینر فراہم کر دیے گئے ہیں۔دوسری جانب امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ میں کورونا وائرس کے باعث ہونے والی پہلی ہلاکت کی تصدیق کر دی ہے۔صدر ٹرمپ کے مطابق ہلاک ہونے والی خاتون کی عمر لگ بھگ 60 برس تھی اور وہ طبی طور پر ’ہائی رسک‘ پر تھیں۔ ان خاتون کا تعلق امریکہ کی شمال مغربی ریاست واشنگٹن سے تھا۔امریکی صدر کا کہنا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ ملک میں کورونا کے مزید کیسز موجود ہوں تاہم اس حوالے سے امریکہ مکمل طور پر تیار ہے۔امریکہ میں حکام کا کہنا ہے کہ وہ اس وبا کے پسِ منظر میں ایران پر عائد کردہ سفری پابندیوں کو مزید سخت کریں گے۔ حکام نے شہریوں کو تنبیہ کی ہے کہ وہ اٹلی اور جنوبی کوریا میں وائرس سے متاثرہ علاقوں کا سفر نہ کریں۔ جبکہ پاکستان میں کورونا وائرس کی تشخیص کے بعد سعودی عرب نے پاکستانیوں کو جاری عمرہ ویزے منسوخ کردیے۔ادھر سعودی عرب نے کورونا وائرس کے پھیلاﺅ کے خدشے کے پیش نظر عمرہ زائرین کے داخلے پر عارضی پابندی لگادی مگر کورونا وائرس سعودیہ بھی پہنچ چکا ہے۔احتیاطی تدابیر کے ساتھ ہی تشخیص کرنا بھی بہت ضروری ہے کورونا وائرس کی تشخیص کے لئے ایک سادہ ٹیسٹ کیا جا سکتا ہے کیونکہ کورونا وائرس کے علامات اتنی جلدی ظاہر نہیں ہوتے ۔جدید ترین معلومات کے مطابق کرونا وائرس (COVID19) 28 دن تک منہ کے ذریعہ پھیپڑوں میں منتقل ہو کر اندر رہتا ہے اور اپنے ظاہری علامات ظاہر نہیں کرتا اور جب تک بیمار کو کھانسی اور بخار کی شکایت لاحق نہ ہو اور ہسپتال نہ جا پائیں تو 50 فیصد پھیپھڑے متاثر ہو کرختم ہو جاتے ہیں اور بہت دیر ہو جاتی ہے ماہرین امراض، کورونا کے مرض کی تشخیص کے لئے ایک سادہ ٹیسٹ بتاتے ہیں کہ جسے ہم ہر روز صبح انجام دے سکتے ہیں گہری سانس لیکر اور سانس کو دس سیکنڈ روکے رکھیں اگر آپ کا سانس بغیر تکلیف کے دس سیکنڈ تک رکا رہے
اور اس دوران نہ کھانسی ہو اور بغیر کسی مسئلے اور مشقت کے رکا رہے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کے پھیپھڑوں میں کوئی مسئلہ نہیں جدید جاپانی ڈاکٹروں کے مطابق ہمارا منہ اور حلق خشک نہ ہونے پائے۔خشک ہونے کی صورت میں ہمیں چاہیئے ہر پندرہ منٹ بعد ایک گھونٹ پانی کا پی لیا کریں اس لیے کہ پانی اور جوس کے استعمال سے وائرس فورا” آپ کے معدے میں منتقل ہوکر معدے میں موجود تیزابیت وائرس کو ختم کر دے گا
اگر ہم پانی کا پورا دن باقاعدگی سے استعمال نہ کریں تو خطرہ ہے کہ وائرس ہمارے نظام تنفس سے ہو کر پھیپھڑوں میں داخل ہوجائے جو کہ بہت خطرناک صورتحال ہوگی ۔انسانی زندگی بچانے کیلئے بہتر معلومات لوگوں کو فراہم کرنا بھی صدقہ جاریہ ہے۔کراچی کے رہائشی 22 سالہ لڑکے یحیی’ کو کورونا وائرس کا مریض بتا کر خوف پھیلانے کے بعد یہ بات سامنے آنا کہ اسکو کورونا تھا ہی نہیں عوام کے سامنے اس افواہ کا اصل ذمہ دار بھی لانا چاہئے تاکہ کوئی بلا وجہ کورونا‏ وائرس کی جھوٹی افواہیں پھیلا کر ملکی مارکیٹ کو مزید نیچے نہ لا سکے افواہوں کے نقصانات سے ملک میں پاکستان سپر لیگ کے کھیلوں کے ساتھ ساتھ سرمایہ کاری پر برا اثر مرتب ہو گا جبکہ ملک کی سرحدیں بند ہونے کی وجہ سے برآمدات درآمدات میں رکاوٹ کے باعث اشیاء خوردونوش مہنگی ترین ہو جائیں گی.حفاظتی طور پر استعمال کیے جانے والے ماسک کی قیمیتوں میں اضافہ کا منظر تو تمام پاکستانی دیکھ چکے ہیں جبکہ اس وائرس کی روک تھام کا عمل سرجیکل ماسک نہیں بلکہ N95 ماسک کرتا ہے۔ملک میں ماسک کے خریداروں نے جب میڈیکل اسٹورز کا رخ کیا تو یا تو انکو دگنی قیمت دے کر ماسک لینا پڑا یا سرے سے ملا ہی نہیں اسکی وجہ بلیک سے بیچنے والوں کی سفاکیت ہے جس پر حکومت کو ایکشن لینا چاہئے۔ سندھ کے اسکولوں کو 13 فروری تک بند کرنا بچوں کو صحتیاب رکھنے کیلئے ایک اچھی احتیاط ہے جبکہ اس نوٹیفیکیشن کے باوجود کچھ اسکولوں نے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسکول کھلے رکھے اور چھاپوں کے بعد اپنا لائسنس منسوخ کروا بیٹھے۔ملک میں کوئی بھی عذاب یا وبا آئے تو سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی انفرادی اور اجتماعی ذمہ داریوں کو سمجھتے ہوئے ملکی استحکام و ترقی کے بارے میں سوچنا چاہئے اور مشکل گھڑی میں ایک دوسرے کا ساتھ دے کر ایک با ہمت قوم ہونے کا ثبوت دنیا کو دینا چاہئے ۔جب ہم پاکستانیوں نے نہ جانے کتنے بم دھماکے،مختلف سانحات،سیلاب،زلزلوں اور دیگر مشکلات کا مل کر سامنا کیا تو یہ کورونا وائرس کیا حیثیت رکھتا ہے۔اپنے ایمان کو پختہ رکھیں اور اپنی اخلاقی ذمہ دارایاں بھر پور انداز میں سر انجام دیں۔ہم سب نے مل کر پاکستان پر آنے والی ہر مصیبت سے لڑنا ہے اسکا مزاق یا تماشہ نہیں بنانا ہے اور یہ ہی زندہ قوم کی پہچان ہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here