قطب اولیاء شہنشاہ ولی ہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ

0
3160

تحریر:سید محبوب احمد چشتی
تبلیغ دین اور اشاعت اسلام میں آپ کا عظیم روحانی کردار کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔
ْٰعقیدت کی وسعت سمندر سے زیادہ ہوتی ہے گہری ہوتی ہے اور جب بات تصوف کی ہو تو عقیدت کی معراج رضا الٰہی سے آسمان کی وسعتوں کو چھونے لگ جاتی ہیں ایسے عقیدت مندوں کے اس ولی کا ذکر اس عظیم شعر سے کرنا چاہوں گا اس ولی کامل نے اپنی عقیدت کے مقام جو کہ سرکار دوعالم ۖکی طرف جاتا ہے رسول اللہۖ کی تعلیمات کو نہایت کو پر اثر انداز سے دینا کے سامنے اجاگر کیا
شاہ است حسین بادشاہ است حسین دین است حسین دین پناہ است حسین
سرداد نداد دست در دست یزید ، حقاکہ بنائے لااللہ است حسین
ہردور میں حکم خداوندی سے نیک اور عبادات گزارولیوں نے اشاعت اسلام کے لئے اپنی بھی پوری زندگی وقف کردی تھی۔ جس کی بدولت آج صدیاں گزرجانے کے بعد بھی ان بزرگان دین کی اہمیت روز اول کی طرح آج بھی کشف وکرامات جاری وساری ہیں۔سرزمین ہندوستان کی خوش نصیبی ہے کہ ان کی سرزمین کواولیاء ہونے کا شرف حاصل ہے۔ اور یہاں اولیاء اکرام کے شہنشاہ سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی جیسے جلیل القدر بزرگ کامزارہے۔خالق کا ئنات رب العالمین نے انسانیت کے محسن اعظم ، ہادی رحمت مجسم رسول اللہۖ کی امت ہردور میں ایسے افرا دمبعوث فرمائے جنہیں اللہ نے اپنے خصوصی انعام واکرام سے نوازا ورا ن سے امت کی ظاہری وباطنی اصلاح کابندوبست فرمایاانہیں برگزیدہ ہستیوں میں سے حضرت خواجہ معین الدین چشتی کا نام بھی آتاہے۔ آپ والد کا اسم گرامی غیاث الدین حسن اور والدہ ماجدہ کا نام سیدہ ام الورع بی بی تھا۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتی کی شادی 590ء ہجری 1194کو بی بی امت کے ساتھ ہوئی آپ کے دوبیٹے اور ایک بیٹی تھی۔ آپ کے پیر ومرشدحضرت خواجہ شیخ عثمان ہارونی سے آپ کو بہت محبت اور عقیدت تھی۔ اس کی محبت اور عقیدت کودیکھ کرخواجہ عثمان ہارونی نے آپ کو (امیرتبرک ) کے شرف سے نوازاآپ کو اپنا سجادہ نشین مقررفرمایا۔ خواجہ غریب نواز معین الدین چشتی اجمیری نے اپنے گفتار اور اپنے کردار سے ایک معیاری زندگی کانمونہ پیش کیا۔ وہ عشق الہیٰ میں ایسے سرمست وسرشارتھے ان کو اپنی ہستی کاپتہ نہیں تھا۔ تسلیم رضا، امیدوبیم، توکل وقناعت ، محبت واخوت،خلوص وخدمت، فقروفاقہ، ایثارواستقامت، افکار۔ا پنی زندگی وموت، فتح وشکست، اپنے سوزوساز کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتے تھے۔ پاک وہندکے اولیاء اکرام،صوفیائے، عظام میں سلطان الہند خواجہ معین الدین چشتی کو سب سے منفرداوربلند مقام حاصل ہے۔ آپ کو نائب الرسول فی الہندۖ کے عظیم لقب سے بھی یادکیاجاتاہے۔آپ کی مکمل زندگی نکات طریقت کا دفینہ تھی حقیقت ومعرفت کاآئینہ تھی معرفت الہیہ کاسرچشمہ تھی۔ انہوں نے اپنی روحانی طاقت سے اپنا ایثارخلوص اور رواداری سے ایک نئے سماج کی تشکیل کی۔اجمیر راجھستان کی راجھستانی سے 130کلومیٹرکا فاصلے پر نیشنل ہائی آرٹ اورت آراولی پہاڑی کے خوبصورت دامن پر واقع ہے۔ بغداد سے
(٢)واپسی پر خواجہ غریب نواز 1156ء عیسوی میں حرم شریف پہنچے خواجہ عثمانی ہارونی نے آپ کا ہاتھ پکڑکر دعا کی اللہ تعالیٰ کی منظوری آئی کہ (ہم نے معین الدین ) کو قبول کیا۔خواجہ غریب نواز معین الدین چشتی سے مریدوں کے بارے میں کچھ کے نام تاریخ میں آتے ہیں۔ سب سے پہلے مریداور سجادہ نشین حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کا نام آتاہے۔ باقی مریدوں کے نام یہ ہیں
خواجہ فخر الدین خواجہ محمدیادگارچشتی خواجہ علائوالدین نیلی چشتی ، حضرت خواجہ نصیر الدین چراغ۔خواجہ غریب نوازمعین الدین چشتی سے منسوب تصانیف، اورعملی نگارشات کو تذکرہ نویسوں سے یوں شمار کیاہے۔ انیس الارواح، حدیث المعارف کشف الاسرار، گنج الاسرار، رسالہ آداب، سیر العارفین، مسالک الساکین، مرقعہ خواجگان ، اورمراة الاسرار شامل ہیں۔ سلسلہ چشتیہ کے عقیدت مندوں کی زباں پر ایک شعرضرورہوتاہے۔
*الٰہی تابود خورشید وماہی*
*چراغ چشتیہ راوروشنائی*
اے اللہ تعالیٰ جب تک چاند اور سورج کی روشنی باقی ہے سلسلہ چشتیہ کے چراغ کوروشن رکھ۔
آپ کاوصال 6رجب 632ھ مطابق 1236 بروز پیرنماز عشاء کے بعد ہوا۔ آج بھی آپ کا پاک وہند میں عقیدت واحترام سے منایاجاتاہے دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں دین اسلام پے قائم رہنے کی توفیق عطافرمائے ۔(آمین)

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here