شیخ رشید کو ڈاکٹر محمد عادل خان کے قتل کی تحقیقات میں شامل کیا جائے، صدروصوبائی وزیر تعلیم و محنت سندھ سعید غنی

0
1244

شیخ رشید کو ڈاکٹر محمد عادل خان کے قتل کی تحقیقات میں شامل کیا جائے، صدروصوبائی وزیر تعلیم و محنت سندھ سعید غنی
کراچی (اسٹاف رپورٹر) پاکستان پیپلز پارٹی کراچی ڈویژن کے صدروصوبائی وزیر تعلیم و محنت سندھ سعید غنی نے کہا ہے کہ شیخ رشید کو ڈاکٹر محمد عادل خان کے قتل کی تحقیقات میں شامل کیا جائے کیونکہ انہوں نے ان کے قتل سے چند گھنٹے قبل اس بات کو اظہار کیا تھا کہ کراچی میں دہشتگردی ہوگی تو ان سے پوچھا جائے کہ وہ کون سے ذرائع تھے کہ جنہوں نے انہیں اس سے آگاہ کیا تھا۔ پی ڈی ایم کی جانب سے جلسوں کے اعلان کے ساتھ ہی خود وزیر اعظم اور ان کے وزراء بوکھلاہٹ کا شکار ہیں اور یہ ان کے رویو اور ان کی شکلوں سے صاف ظاہر ہے۔ پیپلز پارٹی میں ایم کیو ایم، پی ٹی آئی، پی ایس پی، مسلم لیگ (مشرف) سمیت متعدد سیاسی جماعتوں کے لوگ بڑی تعداد میں شامل ہورہے ہیں اور آئندہ چند روز میں جلد ہی بڑے بڑے رہنماؤں کی ثمولیت ہوگی۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پیر کے روز اپنے کیمپ آفس میں شہر کے مختلف اضلاع کے سینکڑوں مختلف سیاسی جماعتوں کے عہدیداران اور کارکنان کی پیپلز پارٹی میں شمولیت کے موقع پر پریس کانفرنس کے دوران کیا۔ اس موقع پر پیپلز پارٹی سندھ کے جنرل سیکرٹری وقار مہدی، کراچی ڈویژن کے جنرل سیکرٹری محمد جاوید ناگوری، امان اللہ محسود، تمام اضلاع کے ضلعی صدور، ایم کیو ایم پاکستان کے یوسی 39، 38 لیاقت آباد کے سابق یوسی چیئرمین معراج وہاب، رئیس خان، عبدالقدوس عالم، آصف رئیس، عمران، سی آئی آر کے انچارج حیسن، ڈسٹرکٹ ایسٹ یوسی 3 کے وائس چیئرمین طاہر جمیل، شفیق تنولی، یوسی 34 کورنگی ٹاؤن کے سابق یونٹ انچارج ایم کیو ایم حسین، پی ایس پی کے محمد شاہد، یوسی 36 پی ایس پی کے یونٹ انچارج محمد طاہر، نائب صدر یو سی 36 کورنگی پی ٹی آئی دانش قریشی، وارڈ صدر رضوان خان کے علاوہ دیگر بھی موجود تھے۔ سعید غنی نے کہا کہ ڈاکٹر عادل خان شہید ایک مثبت سوچ رکھنے والے انسان تھے اور وہ فرقہ واریت پھیلانے والوں کے خلاف کوشش کررہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں خود اس بات کا گواہ ہوں کہ انہوں نے خود نہیں البتہ ان کے بیٹے نے اپنے والد کے لئے سیکورٹی مانگی تھی لیکن ہم سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے آگے بے بس ہیں کہ کسی بھی سیاسی اور مذہبی شخصیت کو سیکورٹی ہم سپریم کورٹ کی تھریڈ اسیسمینٹ کمیٹی کی سفارش کے بغیر فراہم نہیں کرسکتے۔ سعید غنی نے کہا کہ اس وقت وزیر اعلیٰ سندھ کے پاس یہ بھی اختیار نہیں کہ وہ کسی ایک کو کوئی گن مین بھی فراہم کرسکیں کیونکہ جب تک تھریڈ ایسیسمینٹ کمیٹی کی جانب سے منظوری نہیں ہوگی ایسا ممکن نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں عدلیہ کے فیصلوں کا احترام ہے لیکن بعض اوقات ان کے اس فیصلوں سے بہت سی مشکلات پیش آتی ہیں۔ سعید غنی نے کہا کہ میں مطالبہ کرتا ہوں کہ وفاقی وزیر شیخ رشید جنہوں نے اس قتل سے چند گھنٹوں قبل ہی اس بات کا خدشہ طاہر کیا تھا کہ کراچی میں کوئی دہشتگردی ہونے والی ہے اور پی ڈی ایم اپنے جلسہ نہ کرے، اس لئے میرا خیال ہے کہ وفاقی حکومت اس کا سنجیدگی سے نوٹس لے اور ان سے پوچھا جائے کہ وہ کون سے ذرائع ہیں جنہوں نے ان کو اس بات کی نشاندہی کی تھی اس لئے ان کو شامل تفتیش کیا جائے۔ سعید غنی نے کہا کہ ہم نے پہلے بھی کہا تھا کہ پی ٹی آئی میں دہشتگردوں سیاسی ونگ موجود ہے اور ماضی میں بھی انہوں نے اپنے سیاسی مخالفین کو روکنے کے لئے اپنے اس ونگ کا استعمال بھی کیا ہے۔ سعید غنی نے کہا کہ آج ایم کیو ایم، پی ٹی آئی، پی ایس پی سمیت مختلف سیاسی جماعتوں کے عہدیداران اور کارکنان کی ایک بڑی تعداد پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کررہی ہے اور اب یہ سلسلہ ایک نہ رکنے والا سلسلہ ہوگا اور آئندہ چند روز میں بہت سی سیاسی جماعتوں کے بڑے بڑے نام پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں ان تمام شامل ہونے والے کارکنان کو دل کی گہرائیوں سے پیپلز پارٹی میں شمولیت پر مبارک باد پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ یہ نہ صرف 18 اکتوبر کے جلسہ میں اپنے تمام ساتھیوں سمیت شرکت کریں گے بلکہ آنے والے بلدیاتی اور جنرل انتخابات میں ہراول دستہ کا کردار ادا کریں گے۔ اس موقع پر وقار مہدی نے کہا کہ کراچی کا علاقہ لیاقت آباد سیاست کا پیرا میٹر تصور کیا جاتا تھا لیکن افسوس کہ اس پیرا میٹر کا امیج ایک سیاسی جماعت نے نہ صرف خراب کیا بلکہ سیاست کی اس برسری کو تباہ کردیا لیکن آج ایک بار پھر لیاقت آباد کے غیور نوجوانوں اور بزرگوں نے اس پیرامیٹر کو فعال کرنے کا عزم کرتے ہوئے پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت کا اعلان کردیا ہے اور انشاء اللہ وہ دن دور نہیں جب یہی لیاقت آباد اور ڈسٹرکٹ سینٹرل پیپلز پارٹی کا گڑھ بنے گا۔ اس موقع پر شمولیت اختیار کرنے والے مختلف سیاسی جماعتوں کے عہدیداران نے بھی پاکستان پیپلز پارٹی اور کراچی ڈویژن کے صدر سعید غنی پر اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ اب مرتے دم تک پیپلز پارٹی کے ساتھ رہیں گے اور عوام کی فلاح و بہبود کے لئے اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔ ایک سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ پاکستان ڈیموکرٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے جلسوں اور تحریک کے اعلان نے وزیر اعظم سمیت تمام وفاقی ایوانوں میں کھلبلی مچا دی ہے اور ان کی ٹانگیں کانپنا شروع ہوگئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج ہمیں وہ وزیر اعظم قانون سکھانے کی بات کررہا ہے، جس کے اپنے دھرنے میں ایس ایس پی کی پٹائی کی گئی، جس نے تھانوں پر حملے کروائے، جس نے اسٹیج پر کھڑے ہوکر آئی جی پولیس کو دھمکیاں دی، جس نے ٹیکس نہ دینے پر عوام کو اکسایا، جس نے بجلی اور گیس کی بل نہ دینے کا اعلان کیا، جس نے بیرون ملک سے پاکستانیوں کو رقم ہنڈی سے بھیجنے کا کہا وہ وزیر اعظم ہمیں جلسوں کے حوالے سے قانون پر عمل درآمد سکھا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ شیخ رشید ہمیں دھمکیاں دے رہا ہے اور دہشتگردوں کو ہمارے خلاف اکسا رہا ہے۔ سعید غنی نے کہا کہ پی ڈی ایم کے جلسوں میں کسی قسم کی بھی کوئی شرارت یا دہشتگردی ہوئی تو اس کا براہ راست ذمہ دار وفاقی حکومت اور شیخ رشید ہوگا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ 2008 کے بعد سے اس ملک میں بہتری آئی ہے اور تمام سیاسی و مذہبی جماعتیں بڑے بڑے اجتماعات، جلسے اور جلوس کررہی ہیں لیکن اب اپوزیشن کے جلسوں کی راہ میں رکاوٹ ڈال کر حکومت کیا ثابت کرنا چاہتی ہے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ ڈرائی کلین مشین ہمارے پاس نہیں بلکہ ایم کیو ایم اور پی ایس پی کے پاس ہے ہم تو خود عتاب میں آئے ہوئے ہیں۔ ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ ڈبل سواری پر پابندی کا نوٹیفیکیشن حکومت سے مشاورت کے بغیر نکالا گیا تھا اور اس حوالے سے حکومت سے کوئی مشاورت نہیں کی گئی تھی۔ بلدیاتی قوانین کے سوال پر انہوں نے کہا کہ بلدیاتی قانون 2001 میں مشرف کے دور میں جو بنا تھا اس وقت کی نام نہاد جمہوریت نے 8 ویں ترمیم کے تحت اسمبلیوں سے یہ حق چھین لیا تھا کہ وہ اس میں کسی قسم کی ترامیم کرسکیں لیکن 2010 میں جب یہ شرط ختم ہوئی تو سندھ سمیت تمام صوبوں نے اس کالے قانون کو اٹھا کر بھیک دیا اور سب نے نیا بلدیاتی قانون بنایا اور اس میں ترامیم بھی کی جاتی رہی ہیں اور آئندہ بھی اس میں ترامیم کی گنجائش موجود ہے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم کی باتوں کو سنجیدہ نہ لیا کریں کیونکہ اس نے جو باتیں ماضی میں یا حال میں کی ہیں وہ کسی پر بھی عمل پیرا نہیں ہے۔ احتساب کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک میں دو احتساب کے پیمانے ہے ایک اپوزیشن کے لئے اور دوسرا حکومت میں شامل لوگوں کے لئے ہے۔ جہانگیر ترین جو سالہا سال سے پوری پی ٹی آئی اور خود عمران خان کے بنی گالا کو چلا رہا ہے اور دوسرے ان کے اے ٹی ایم، علیمہ باجی، خسرو بختیار، عاصم باجوہ ان پر کوئی احتساب نہیں لیکن بلاول بھٹو زرداری کے کھانے اور ان کے کپڑوں کی ڈرائی کلین پر کیس بن جاتے ہیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here