پاکستانی قوم اور انٹرنیٹ

0
2125

 

 

 

تحریر۔ نازیہ علی
پاکستان کی نوجوان نسل اور پاکستانی قوم تیزی سے انٹرنیٹ کے منفی استعمال سے تباہی کا شکار ہوتی دکھائی دے رہی ہے جو کہ کسی المیے سے کم نہیں اپنی اسلامی دینی تعلیمات اور خاندانی روایات کو بھلا کر جب انسان اپنے آپ کو کسی کی دیکھا دیکھی اسکے انداز اور اسکی سمت چلانے کی کوشش کرنے لگے تو ایسے میں اس پر یہ محاورہ غلط نہیں کہ “کوا چلا ہنس کی چال اور اپنی بھی بھول گیا”۔ہمارا معاشرہ مشرقی روایات بھلا کر مغربی بے حیائی سے متاثر ہو کر وہ آزادی اپنانے کو تیار دکھائی دیتا ہے۔ہم ایک ایسے معاشرے میں جی رہے ہیں جہاں والدین اپنی اولاد کے ہاتھ میں موبائل دیکھ کر بھی ان پر کسی قسم کی نظر نہیں رکھتے ۔اسطرح کی تمام صورتحال میں معاشرے میں منفی نتائج آنا کوئی انوکھی بات نہیں جب والدین یہ نہیں نظر رکھیں گے کہ انکی طالب علم جوان اولاد موبائل پر کیا کر رہی ہے موبائل پر گیم کھیلا جا رہا ہے یا یوٹیوب پر کوئی غیر اخلاقی ویڈیو دیکھی جا رہی ہے وہیں سے تو معاشرے کا بگاڑ شروع ہوتا ہی ہے۔ انٹر نیٹ کے ذریعے سوشل میڈیا کے استعمال کی اگر نوجوان نسل میں بات کی جائے تو وہ مثبت اور منفی ہے مگر زیادہ تر منفی رجحان دیکھا گیا ہے فیس بک ،واٹس اپ ،انسٹا اور ٹک ٹاک کے ذریعے کچھ گھروں میں طوفان آئے ہوئے ہیں اور کچھ میں انکی تیاری اکثر رہتی ہے۔پہلے جہاں گاؤں یا دیہاتوں کے پسماندہ علاقوں میں لڑکیاں یا عورتیں باپردہ پائی جاتی تھیں اب انکے ہاتھوں میں بھی موبائل تھما کر یا تو کمائی کا ذریعہ یا پھر کسی کا گھر اجاڑنے کا ذریعہ بنا دیا گیا ہے جس گاؤں یا دیہات کی لڑکی کے گھر والوں کے پاس نہ لڑکی بیاہنے نہ ہی لڑکی کے اخراجات اٹھانے کا انتظام ہو وہ کہیں نہ کہیں سے اسمارٹ فون پر اسکو انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کر کے اپنی آنکھیں بند کر لیتے ہیں اور سوچ لیتے ہیں کہ لڑکی خود ہی اپنا ہمسفر اور زندگی چن لے گی اور بوجھ اترے گا اور اکثر گاؤں دیہاتوں کی لڑکیاں مردوں کی دوسری تیسری کیا چوتھی بیوی بننے پر بھی خوشی سے آمادہ دکھائی دیتی ہیں کیونکہ اکثر انٹر نیٹ کے ذریعے افیئرز چلانے والے مرد کسی نہ کسی شہر سے تعلق رکھتے ہیں اور گاؤں یا غریب گھروں کی لڑکیاں غربت اور اس ماحول سے چھٹکارے کیلئے دیہی سے شہری بننے کو ترجیح دیتے ہوئے مرد کی اپنی پہلی بیوی کے خلاف سنائی گئی جھوٹی داستانوں پر بھی بھروسہ کر لیتی ہیں اور اپنی غیرت کی تمام حدیں پار کر کے کسی بھی شادی شدہ مرد کو بآسانی اکسا کر اپنا دیوانہ بننے پر مجبور کر دیتی ہیں ایسے کیسز میں اکثر انکے گھر والے ماں یا بھائی غربت کو بہانے بناتے ہوئے بے باکی سے انکا ساتھ دیتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور لالچ میں اتنے اندھے ہو جاتے ہیں کہ ایک طرح سے انکی بیٹی یا بہن انکی کمائی کا ذریعہ بن جاتی ہے کیونکہ انکی بہن نے جس مرد کو اکسایا ہوتا ہے وہ آن لائن شاپنگ کے ذریعے اس لڑکی سمیت تمام گھر والوں کی فرمائشیں پوری کر رہا ہوتا ہے گھر والے یہ بھول جاتے ہیں کہ کنوارا لڑکا جب کسی لڑکی کے عشق میں گرفتار ہوتا ہے تو وہ محبت ہو سکتی ہے مگر شادی شدہ مرد جب کسی کا دیوانہ بنتا ہے تو وہ محبت نہیں زنا کہلاتا ہے جسکا اکثر کوئی انجام نہیں ہوتا اسی طرح کنوارے مرد کی محبوبہ کہلاتی ہے جبکہ جب شادی شدہ مرد عورت سے صرف لذت کیلئے رشتہ رکھے تو وہ اسکی رکھیل کہلاتی ہے کیونکہ جس مرد کو بےوقوف سمجھ کر اکثر لوگ اپنی لڑکی کے زریعے فائدہ اٹھا رہے ہوتے ہیں وہ اس لڑکی سے محبت کے دعوے انکے سامنے تو کرتا ہے مگر دنیا کے سامنے سارے محبت کے دعوے اسکی بیوی کیلئے ہوتے ہیں کیونکہ اللہ نے نکاح میں ایک قدرتی طاقت رکھی ہے ۔کاش کہ یہ چھوٹی سی بات وہ پیسے کے بھوکے لوگ اور لالچی لوگ سمجھ جائیں جو سمجھتے ہیں کہ سوشل میڈیا کے ذریعے مرد پھنسا کر لڑکی اسکو دے دینگے اور بآسانی شادی شدہ اور اولاد والے گھر اجاڑ دیں گے۔مگر یاد رکھئے مرد کو اللہ نے ایک فطرت دی ہے وہ کتنا ہی ایڈوانس ہو جائے کتنی ہی جگہ منہ مار لے مگر اسکو عورت وہی چاہئے جو باکردار ہو اسی لئے وہ بیوی اسکو بناتا ہے جس سے محبت کو نکاح کا نام دے سکے جبکہ بڑے مزے سے ایک ناجائز رشتے کو محبت کا نام دینے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ جیسے لفظ ہمارے معاشرے کی عکاسی نہیں کرتے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان لکھے جانے والے ملک میں کیا اسلام ایسے رشتوں کی اجازت دیتا ہے؟ سوشل میڈیا کے ذریعے کتنے گھر تباہ ہو رہے ہیں کیا کبھی کسی نے اس پر بات کرنے کی ہمت کی ۔کیا ہم اسکول سے کالج اور کالج سے یونیورسٹی جانے والے طالبات کی عمر کا تعین کرتے ہوئے کبھی ان پر نظر رکھ سکتے ہیں پہلے ایک لڑکی تعلیم حاصل کرنے جائے تو پردہ کرے یا نہ کرے مگر وہ جانتی تھی کہ جب ایک غیر لڑکا اسکی تعریف یا کوئی غلط بات کرتا ہے تو اس لڑکی کو سمجھ جانا ہے کہ وہ ٹھیک لڑکا نہیں یا اسکی نیت اور ارادہ ٹھیک نہیں کیونکہ اگر وہ صحیح ہوتا تو عزت سے شادی کی بات کر کے گھر والوں کو رشتے کیلئے بھیجتا مگر اب تو کہانی الگ ہے فیس بک پر لڑکی اپنی سب سے خوبصورت تصویر فلٹر کر کے اپ لوڈ کرتی ہے اور اس پر ہر چلتا پھرتا کوئی نہ کوئی کمینٹ کرتا ہے اور جو باپردہ بن کر بابا کی رانی،ننھی پری وغیرہ وغیرہ کے نام کی آئی ڈی بنا کر شرمیلی بننے کا بھیکانک کھیل کھیلتی ہیں وہ اپنی تصویر نہیں لگاتیں مگر کبھی اپنی آنکھوں کی میک اپ بھری ڈی پی تو کبھی گھنی زلفوں کو سنوار کر بالوں کی ڈی پی اور تو اور کبھی اپنے پیروں کی ڈی پی لگاتی ہیں اور انکے باپ بھائی جو انکو پردے کا درس دیتے ہیں وہ کبھی نہیں پوچھتے کہ یہ سب چیزیں کس کو اکسانے کیلئے لگا رہی ہوں۔کیونکہ دراصل ایسی تمام لڑکیاں فیس بک کے ذریعے اپنا واٹس اپ نمبر کسی نہ کسی کو دے کر ایک خیر اخلاقی رشتے میں جڑ چکی ہوتی ہیں۔سوشل میڈیا جہاں ایک طرف سیاستدانوں،اداکاروں،ماڈلز،فیشن ڈیزائنرز،میک اپ آرٹسٹ،بزنس مین،شیف اور دیگر معروف شخصیات اور کاروباری حضرات کیلئے انکے کام کی تشہیر یا لوگوں سے رابطے کا ذریعہ ہے وہیں دوسری جانب اسکا منفی استعمال ہماری نسلیں تباہ کرتا دکھائی دے رہا ہے خدارا اپنے بیٹوں اور خاص کر اپنی بیٹیوں پر نظر رکھیں کہ کہیں وہ موبائل ہاتھ میں پکڑ کر آپکی عزت کو اپنے قدموں تلے روندھنے کی تیاریاں تو نہیں کر رہی ہیں۔فن سے تعلق رکھنے والوں یا پھر طوائفوں کی جگہ جب کسی گھر کی تقریب یا شادی میں کوئی لڑکی ڈانس کا کہتی تھی تو سو باتیں سوچی جاتی تھیں کہ ڈانس نازیبہ نا ہو یا باپ بھائی سامنے نہ ہو مگر آج ہر لڑکی ٹک ٹاک پر ناچتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے وہ مرد جو کوٹھے کی طوائفوں کو برا کہتے دکھائی دیتے ہیں کیا انکو ٹک ٹاک پر ناچتی اپنے ہی گھر کی طوائفیں نظر نہیں آتیں جو محرم اور نا محرم کا فرق بھلا کر ہر مرد کے ٹک ٹاک سے جڑ کر اپنا ٹک ٹاک بناتی ہیں۔وہیں ایک اور پہلو ہے جہاں معصوم لڑکیوں کی تصاویر کا غلط استعمال تیزی سے کیا جاتا ہے کسی کی بھی ڈی پی لگا کر بآسانی اسکو بدنام کیا جا سکتا ہے معاشرے کی اس بڑھتی بے حیائی پر ہم سب کو مل کر آواز اٹھانی ہو گی ورنہ وہ دن دور نہیں جب ہم خود دعا کرینگے کہ کاش اسمارٹ فون اور انٹرنیٹ ہماری دنیا سے کہیں دور چلا جائے جب شادی شدہ مرد یا عورت یا کنوارا لڑکا یا لڑکی باآسانی ویڈیو کال پر بے باکی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں تو ذرا سوچِئے اس معاشرے کا کیا ہو گا اپنی بیٹیوں کو سمجھائیے کہ سچی محبت اللہ اسکے رسول اور اسکے بنائے سچے رشتوں سے کی جاتی ہے۔یا پھر اس مرد سے جس کے ساتھ نکاح پڑھوا کر رخصت کیا جائے اور بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی عورت کا بھی پورا فرض ہے کہ اس رشتے اور محبت کی لاج رکھتے ہوئے اپنے ساتھ جڑنے والے رشتے اور نام کو پامال نہ کرے۔خدارا اپنی قوم اور ملک کی نئی نسل کو انٹرنیٹ کے ذریعے سوشل میڈیا کے منفی استعمال سے روک لیجئے ورنہ ہماری آنے والی نسل معاشرے اور اسلام کی تمام اصلاحات اور روایات کو اپنے قدموں تلے روندھ دے گی۔نئے سال کی آمد ہے لہذا والدین سے گزارش ہے کہ نئے سال کے آغاز پر والدین یہ عزم کریں کہ اپنی اولاد کے انٹرنیٹ کے استعمال پر بابت احتساب اور کڑی جانچ رکھینگے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here