لاک ڈاﺅن میں ادارہ ترقیات کراچی ودیگر بلدیاتی اداروں میں ورک چارج ودیگرملازمین ذہنی اذیت کا شکار

0
1298

تحریر: سیدمحبوب احمدچشتی

شہرقائدکے بلدیاتی اداروں میں ملازمین سہولیات سے کوسوں دور کر دئیے گئے تنخواہوں میں تاخیر کے ساتھ انہیں اب جائز مراعات فراہم کرنے کیلئے ارباب اختیار کے ساتھ بلدیاتی افسران بھی طبی سہولیات جیسی بنیادی سہولت ختم ہونے کے بعد بلدیاتی ملازمین اور ان کے خاندان شدید بیماریوں کی صورت میں حسرت ویاس کی تصویر بن کر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنے پر مجبور ہیں ملک میں جاری کوروناوائرس نے صورتحال کو مزید خراب کردیا ہے موجودہ بلدیاتی اداروں کی صورتحال میں اگر تنخواہوں کی ادائیگی کا سپریم کورٹ کی جانب سے سخت حکمنامہ نہ ہوتا تو تنخواہوں کے پیسے بھی مفادات کی نذر ہونے کا امکان تھا بلدیاتی اداروں سے اسوقت ہاوس بلڈنگ لون، ایس آ ایس فنڈ ،میڈیکل ری ایمبرسمنٹ تقریبا ختم کی جا چکی ہے جبکہ اوورٹائم یا لیٹ سٹنگ الاﺅنس پر کاری وار کر کے ملازمین کو گھٹنے کے بل زمین پر گرادیا گیا ہے بلدیاتی اداروں میں ملازمین بلدیاتی تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہے ہیں جہاں سندھ سروس رولز کے منافی اقدامات کرتے ہوئے ملازمین کی جائز مراعات کو قصہ پارینہ بنانے کے حوالے سے اقدامات کا سلسلہ جاری ہے جبکہ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ منتخب بلدیاتی سربراہان بھی اس بات پر آواز اٹھانے یا مراعات بحال رکھنے کے بجائے افسران کی تائید کرتے ہوئے میدان میں ہیں میڈیکل ری ایمبرسمنٹ یا طبی سہولیات بند ہونے سے بلدیاتی ملازمین کی حالت انتہائی خراب ہوتی جارہی ہے محتاط اندازے کے مطابق 30 فیصد ملازمین یا اہل خانہ میں سے شدید بیماریوں میں مبتلا ہیں لیکن علاج معالجے کی سہولیات نہ ملنے سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر موت کی وادیوں میں پہنچ رہے ہیں اور یہ تسلسل مزید جاری رہا تو اندیشہ ہے کہ بلدیاتی اداروں میں خاص طور پر طبی سہولیات نہ ملنے سے ملازمین یا اہل خانہ ہلاک ہوتے رہیں گے مگر انہیں پوچھنے والا کوئی نہیں ہوگا کیونکہ دوران ملازمت وفات پا جانے والے افسران وملازمین کے ساتھ بھی مذکورہ افسران کا انتہائی بے حسی کا رویہ ہے وفات پا جانے والے ملازمین کے اہل خانہ کو فوری امداد کی ادائیگی کی ہی نہیں جا رہی ہے جبکہ سندھ حکومت گریڈ کے اعتبار سے دوران ملازمت وفات کرجانے والوں کیلئے مالی معاونت فراہم کرنے کا نوٹیفیکیشن بھی جاری کر چکی ہے جس پر بلدیاتی اداروں میں کوئی عمل درآمد نہیں کیا جا رہا ہے بلدیاتی ملازمین نے وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ ،وزیر بلدیات سندھ سید ناصر حسین شاہ سے ہاتھ جوڑ کر گزارش کی ہے کہ وہ بلدیاتی اداروں کے ملازمین کی مذکورہ جائز مراعات فراہم کرنے کیلئے میونسپل کمشنرز کو پابند کریں کیونکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ بلدیاتی ملازمین مہنگائی کی وجہ سے زمین بوس ہوتے جا رہے ہیں اورموجودہ لاک ڈاﺅن کی صورتحال سب کے سا منے ہے دوسری جانب ادارہ ترقیات کراچی میں ورک چارج ملازمین اِس برے حالات میں انتہائی مشکلات کا شکار ہیں جو کہ پچھلے 28 ماہ سے تو پہلے ہی اپنی تنخواہوں کی بندش کے باعث پریشانی اور فاقہ کشی پر مجبور تھے اور اب لاک ڈاﺅن کے باعث تو ورک چارج ملازمین اور باہر روز کھانے کمانے والا مزدوری کر کے اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پال رہے تھے وہ بھی بہت ذہنی اذیت کاشکار ہورہے ہیں لاک ڈاﺅن جیسے فیصلے نے تو سب کچھ بدل کر ہی رکھ دیا۔ اب تو ورک چارج ملازمین بھیک مانگنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ مگر انتظامیہ کی مستقل بے حسی اور ہٹ دھرمی جاری ہے اس حوالے سے کے ڈی اے ایمپلائز یونین کی درخواست پر سابق پارلیمانی لیڈر سندھ اسمبلی اور موجودہ رابطہ کمیٹی ممبر و ممبر صوبائی اسمبلی خواجہ اظہار الحسن اپنا کردار ادا کرتے ہوئے ہرممکن کوشش کررہے ہیں اس حوالے سے انہوں نے وزیر بلدیات سندھ سید ناصر حسین شاہ سے کے ڈی اے ورک چارج ملازمین کے مسئلے پر ٹیلی فونک رابطہ کیا اور ان سے درخواست کی کہ ورک چارج ملازمین کی دو سال سے تنخواہیں بندہیں جس پر وزیر بلدیات نے کہا کہ ایک کمیٹی قائم کی گئی تھی جس پر خواجہ اظہار الحسن نے کہا کہ ہم کمیٹی کے کام کو روکنے کی با ت نہیں کر رہے اس وقت پورا ملک کورونا وائرس کی زد میں ہے خاص طور پر کراچی میں بھی لاک ڈان کو دو ہفتے ہونے والے ہے اس لئے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر ورک چارج ملازمین کو کم از کم ایک ماہ کی تنخواہ دی جائیں موجودہ صورتحال ورک چارج ملازمین کو تنخواہوں کی ادائیگی بہت ضروری ہے

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here