اکٹر پنجوانی سینٹر کے تحت سندھ کہ پہلی ڈی این اے فورنسک لیب قائم

0
1817

لیبارٹری بین الاقوامی معیار پراُستوارہے، پروفیسر اقبال چوہدری کی بین الاقوامی مرکز جامعہ کراچی میں پریس کانفرنس

لیب ایک ماہ میں سو تجزیات کرسکتی ہے،دہشت گردی جیسے جرائم کے ملزمان کی شناخت میں مدد ملے گی

کراچی۔ڈاکٹر پنجوانی سینٹر فار مالیکولر میڈیسن اینڈ ڈرگ ریسرچ، جامعہ کراچی کے تحت سندھ میں پہلی جدید فورنسک ڈی آکسی رائیبو نیوکلک ایسڈ (ڈی این اے) اور سیرولوجی لیبارٹری کا قیام عمل میں آ گیا ہے، یہ سندھ میں اپنی نوعیت کی پہلی اور پاکستان میں دوسری فورنسک لیبارٹری ہے جسے جمیل الرحمن سینٹر فار جینومکس ریسرچ میں قائم گیا ہے، اس لیبارٹری کی مدد سے دہشت گردی اور ریپ جیسے جرائم میں ملوث افراد کی شناخت میں بے حد مدد ملے گی، چھ ماہ کی مدت میں قائم ہونے والی اس لیب میں ایک ماہ میں سو تجزیات کیے جاسکتے ہیں۔

یہ بات بین الاقوامی مرکز برائے کیمیائی و حیاتیاتی علوم (آئی سی سی بی ایس) جامعہ کراچی کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹرمحمد اقبال چوہدری نے بدھ کو بین الاقوامی مرکز کے ملٹی پرپز ہال میں منعقدہ ایک پریس کانفرنس کے دوران صحافیوں سے گفتگوکرتے ہوئے کہی، اس موقع پر لیبارٹری کے پروجیکٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر اشتیاق احمدسمیت بین الاقوامی مرکز کئی سینئر آفیشلز بھی موجود تھے۔ پروفیسراقبال چوہدری نے کہا یہ منصوبہ سندھ فرانسک اتھارٹی کا حصہ ہے، لیکن سپریم کورٹ کے احکامات کے تحت پہلے مرحلے میں صرف یہ لیب قائم کی گئی ہے، صوبائی حکومتِ سندھ نے گزشتہ سال آئی سی سی بی ایس، جامعہ کراچی کے تحت چلنے والے جدید ادارے ڈاکٹر پنجوانی سینٹرکو22کروڑ روپے ایک جدید فورنسک ڈی این اے اور سیرولوجی لیبارٹری قائم کرنے کی مد میں جاری کیے تھے جبکہ اس کی تعمیر میں بین الاقوامی مرکز سے منسلک اداروں کی جانب سے دی گئی رقم بھی شامل ہے۔ انھوں نے کہا یہ لیب جدید سائنسی آلات سے مزیّن ہے جہاں ایک ماہ میں سو تجزیات کیے جاسکتے ہیں جبکہ کسی ایمرجنسی کی صورت میں دوسری قومی تجربہ گاہوں سے بھی خدمات لی جاسکتی ہیں، انھوں نے کہا سپریم کورٹ کے جسٹس فیصل عرب جمیل الرحمن سینٹر میں فورنسک لیبارٹری کے پروجیکٹ کا مکمل جائزہ لے چکے ہیں اور اطمینان کا اظہار بھی کرچکے ہیں، انھوں نے کہا ڈی این اے ایک طاقت ور ثبوت کے طور پر قانونی تحقیقات میں معاون ہوتا ہے، انھوں نے کہا ڈی این اے زمین پر زندگی کی ہر شکل میں پایا جاتا ہے، انسانی جسم میں ہر سیل ڈی این اے کا حامل ہوتا ہے جو جینیاتی کوڈ بھی کہلاتا ہے جو ایک انسان کودوسرے انسان سے مختلف کرتا ہے۔ انھوں نے کہا پولیس اہلکاروں اور تفتیشی آفیشلز کو اس عنوان سے تربیت دی گئی ہے اور اس لیب میں آئندہ بھی تربیت کا یہ سلسلہ جاری رہے گا جس میں سب سے اہم شواہد کی جائے وقوعہ سے لیب تک سائنسی انداز میں منتقلی بھی شامل ہے۔

ڈاکٹر اشتیاق احمد نے کہا کہ اس لیبارٹری کا موازنہ دنیا کی کسی بھی جدید فورنسک لیب سے کیا جاسکتا ہے، انھوں نے بتایا اس لیب میں جائے وقوعہ سے ملنے والے شواہد کا ڈی این اے کی بنیاد پر تجزیہ کیا جاتا ہے، یہ لیبارٹری جدید آلات سے نہ صرف مزیّن ہے بلکہ اس کی تعمیر بھی خاس سائینسی انداز میں کی گئی ہے۔

 

 

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here