شہرکراچی کا کوئی والی وارث نہیں اور غیر منظم ہو نے کی وجہ سے اب اس شہر کے مسائل پر قابوپانامحض ایک ادھورے خواب کی مانند ہے۔ مظہرعباس

0
581

شہرکراچی کا کوئی والی وارث نہیں اور غیر منظم ہو نے کی وجہ سے اب اس شہر کے مسائل پر قابوپانامحض ایک ادھورے خواب کی مانند ہے۔ مظہرعباس
کراچی:(اسٹاف رپورٹر) معروف صحافی اور سیاسی تجزیہ نگار مظہر عباس نے کہا کہ بدقسمتی سے کراچی کا کوئی والی وارث نہیں اور غیر منظم ہو نے کی وجہ سے اب اس شہر کے مسائل پر قابوپانامحض ایک ادھورے خواب کی مانند ہے۔ کراچی کے صرف 34 فیصد حصے پر شہری حکومت کا کنٹرول ہے۔ کراچی کی بہتری کے لئے ایک مضبوط اتھارٹی کا قیام ناگزیرہے اور اس کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت، صوبائی حکومت اور شہری حکومت کے مابین ہم آہنگی بھی ہونی چاہیئے۔ ان خیالات کا اظہارانہوں نے شعبہ بین الاقوامی تعلقات جامعہ کراچی کے گریجویٹ اسٹڈیز ڈسکشن فورم(جی ایس ڈی ایف) کے زیر اہتمام منعقدہ سیمینار بعنوان: ”کراچی کا سیاسی منظرنامہ“ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
مظہر عباس نے مزید کہا کہ وفاقی،صوبائی یا مقامی حکومت کوئی بھی کراچی کی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں لیکن اس کے باوجود کراچی پاکستان کی معیشت میں بڑاحصہ ڈال رہاہے۔شہر کراچی کے لئے مختص بجٹ اس کی ضروریات کا نصف ہے کیونکہ کراچی کی آبادی ساڑھے تین کروڑ سے زائد ہے،تاہم 2017 ء کی مردم شماری کے مطابق شہرکی آبادی 16.1 ملین تھی۔شہر میں بڑھتی ہوئی مجرمانہ سرگرمیاں،انفرااسٹرکچر کے مسائل اور دیگر سماجی مسائل سے آپ سب بخوبی اندازہ لگاسکتے ہیں۔
انہوں نے مزیدکہا کہ 1947 ء میں تقسیم کے وقت انڈیا سے کراچی آنے والے مہاجرین کا جھکاؤ دائیں بازو کی طرف تھا۔ نتیجتاً شہر کا سیاسی کلچر مسلم لیگی بن کر رہ گیا،لیکن مسلم لیگ کے زوال کے بعد، مذہبی قدامت پسند سیاسی جماعتوں، جیسا کہ، جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے پاکستان (جے یو پی) کے اثر و رسوخ میں اضافہ ہوا۔ کراچی بھی اپوزیشن کا شہر رہا ہے چاہے وہ طلبہ کی تحریکیں ہوں یا فاطمہ جناح کی یا بھٹو کی ایوب مخالف تحریکیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ کراچی کی سیاست میں ایک نئے دور کا آغاز 1972 کے بعد ہوا جب بھٹو حکومت کی کوٹہ سسٹم اور لینگویج بل کے نفاذ کی پالیسیوں کے نتیجے میں شہر نے فسادات دیکھے۔ ان کا یہ بھی خیال تھا کہ ایم کیو ایم ان حالات واقعات کے تناظر میں وجود میں آئی۔
مظہر عباس نے مختصراً بتا یاکہ 1979 میں ایرانی انقلاب اور افغان جنگ سمیت اہم علاقائی واقعات نے فرقہ وارانہ اور نسلی تشدد کے حوالے سے کراچی کو کس طرح متاثر کیا تھا۔ مزید برآں، شہر کو بھی کلاشنکوف کا اثر محسوس ہوا اور شہر میں منشیات کا کلچر درآمد کیا گیا اور پھر مختلف مافیاز اور انڈر ورلڈ گروپس ابھرے جنہوں نے شہر کی سیاست کو کنٹرول کرنا شروع کر دیا۔
مظہر عباس نے ایک مضبوط اور بااختیار بلدیاتی نظام کی اشد ضرورت پر زور دیا جو کسی بھی قسم کے سیاسی اثر و رسوخ اور مداخلت سے پاک ہو۔ میئر کو بااختیار بنایا جائے اور اسے شہر اور اس کے اداروں کا مکمل اختیار دیا جائے۔ موجودہ صورتحال کے مطابق میئر کراچی کا صرف 34 فیصد حصے پر اختیار ہے جبکہ باقی کا کنٹرول کنٹونمنٹ بورڈ، ڈی ایچ اے اور ریلوے کے پاس ہے۔
انہوں نے مزیدکہا کہ کراچی کے تمام اسٹیک ہولڈرز کے درمیان اتفاق رائے ہونا چاہیئے اور انہیں کراچی سے متعلق تمام فیصلہ سازی کے عمل میں آن بورڈ لیا جانا چاہیئے۔ انہوں نے ایک مضبوط بلدیاتی نظام کے تحت شہری اداروں کی ترقی پر بھی زور دیا۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی، صوبائی اور مقامی حکومتوں کی ہم آہنگی سے کراچی کے مسائل حل ہو سکتے ہیں قبل ازیں چیئرمین شعبہ بین الاقوامی تعلقات ڈاکٹر نعیم احمد نے خطبہ استقبالیہ کیا اور گریجویٹ اسٹڈیز ڈسکشن فورم کے تعارف کے ساتھ ساتھ تعلیمی سرگرمیوں پر روشنی ڈالی، جس کے مطابق، اس کا آغاز 1996 میں ہوا۔ شعبہ کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر نوشین وصی نے کلمات تشکر سے سیمینار کا اختتام کیا۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here