فرسٹ وومن کانفرنس کراچی آرٹس کونسل

0
1890

رپورٹ: سید قلبے محمد

کراچی( ) جسٹس (ر)ناصر ہ اقبال نے کہا ہے کہ پاکستان میں عورتیں مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہونے کے باوجود زیادتی کا شکار ہیں سندھ میں خواتین کےلئے بہترین قانون سازی کی گئی لیکن اس پر مکمل عمل درآمد کی ضرورت ہے۔مردعورتوں کے وراثتی حقوق کو یکسر نظر انداز کردیتے ہیں جوسراسر ناانصافی ہے۔خواتین کو دوووٹ کا حق ہونا چاہئے ایک ووٹ مرد اور دوسرا کسی خاتون امیدوار کو دینا چاہئے۔موجودہ دور میں ملازمتوں کےلئے خواتین کا انتخا ب کوٹہ سسٹم پر نہیں بلکہ میرٹ پر کیا جاتا ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام دو روزہ ”فرسٹ وویمن کانفرنس“ کے افتتاحی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ا س موقع پر صوبائی وزیر برائے ترقی ونسواں سیدہ شہلارضا، صدر آرٹس کونسل محمد احمد شاہ ،سیکریٹری پروفیسر اعجاز احمد فاروقی ،آئی اے رحمان ،زہرہ نگاہ،کشور ناہید، ڈاکٹر مسعود حسن ود یگر بھی موجود تھے۔ناصرہ اقبال نے مزید کہا کہ پاکستان احترام انسانیت کےلئے بنایا گیا تھا لیکن ہمارے معاشرے میں ہمیشہ سے خواتین کے ساتھ تعصب برتا گیا۔عورتوں کے حقوق سلب کرنے میں خود ماﺅں کا کردار ہے جس کو بدلا جانا چاہئے۔بانی پاکستان قائد اعظم نے بھی تحریک پاکستان میں عورتوں کے کردار کو نمایاں مقام دیا صوبہ سرحدمیں خواتین نے ہی اپنے مردوں کو پاکستان کےلئے قائل کیا۔ اعظم کے انتقال کرجانے کے بعد ملک میں خواتین سے استحصال کاسلسلہ شروع ہوا۔98فیصد خواتین آج کے جدید دور میں بھی گھریلو تشدد کا شکار ہیں جن میں صرف دس فیصد اس کے خلاف آواز اٹھاتی ہیں اور ان میں سے تین فیصد ہی عدالتوں تک پہنچ پاتی ہیں،ایک اور زیادتی یہ ہے کہ ہماری 75فیصد خواتین زندگی کے مختلف شعبہ جات میں کام کررہی ہیں لیکن اعداد وشمار میں ان کو صرف 25فیصد ہی دکھایا جاتا ہے۔مردم شماری کی جگہ فردم شماری کرنے کی ضرورت ہے۔ آئی اے رحمان نے اپنے خطاب میں کہا کہ عورتوں کے بین الاقوامی دن ماننے کا مقصد ان کی خدمات کا اعتراف ہے لیکن پاکستان میں محنت کش خواتین کو اجر نہ ملنے کے علاوہ ان کی خدمات کا اعتراف بھی نہیں کیا جاتا قیام پاکستان اور اس کے بعد بھی چلنے والی تمام تحریکوں میں خواتین کا کردار نمایاں ہے مسلمان معاشرے میں عورت کا مقام مغرب سے اونچا ہے 1956ءکے آئین میں خواتین کو مردوں کے برابر اُجرت دینے کی بات کی گئی جس یکسر نظر انداز کردیا گیا اور یہ زیادتی آج تک کی جارہی ہے لیکن اس پر آواز اٹھانے والا کو ئی نہیں ہے۔خواتین کی اہمیت کا انداز ہ اس سے لگا یا جاسکتا ہے کہ امریکہ کی صنعتی ترقی میں مردوخواتین دونوں کا کردار یکساں ہے۔صد ر آرٹس کونسل محمداحمد شاہ نے خطبہ استقبالیہ دیتے ہوئے کہا کہ خواتین اور مرد برابرکی حیثیت سے پیدا ہوئے سماج کےلئے بہتر ہے کہ مردوعورت دونوں مل جل کرکام کریں۔مردوں کو ہرشعبے میں حقوق مل جاتے ہیں لیکن خواتین اس سے محروم ہے جس کے لئے آواز اٹھانی ہوگی۔مختلف مشکل شعبوں میں پاکستان کا نام خواتین نے ہی روشن کیا جن میں ثمینہ بیگ نے چھوٹی سی عمر میں چوٹیاں سر کرکے یہ ثابت کیا کہ پاکستانی عورتیںکسی سے کم نہیں پاکستان کو پہلا آسکر ایوارڈ بھی ایک خاتون کے نام رہا۔ خواتین کا ایشو ان کا زیادتی مسئلہ نہیں بلکہ یہ سماج کا مسئلہ ہے جس کو حل کرنے سے معاشرے میں بہتری آئے گی۔پہلے سیشن کے اختتام پر معروف شاعرہ زہرہ نگاہ نے مشہور نظم میں ”بچ گئی ماں “اور کشور ناہید نے ”ہم گناہ گار عورتیں “پیش کیں جسے حاضرین نے بے حد سراہا۔پہلے سیشن کے اختتام پر شکریہ کے کلمات سیکریٹری آرٹس کونسل پروفیسر اعجاز احمد فاروقی نے ادا کئے جبکہ نظامت کے فرائض ڈاکٹر ہماءمیر سے سرانجام دیئے۔
کراچی ( )سابق گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر شمشاد اختر کا کہنا ہے کہ پاکستان میں غربت کا خاتمہ خواتین کو معاشی طور پر خودمختار بنانے سے ممکن ہے ۔خواتین کو سرکاری ونجی شعبہ میں ملازمتوں کے یکساں مواقع دینے کےلئے باقاعدہ قانون سازی کی ضرورت ہے ۔جی 20ممالک کے تما م لیڈران اس بات پر متفق ہیں کہ عورتوں کی تعلیم زیادہ خرچ کیا جائے تاکہ بہتر معاشرہ کا قیام عمل میں آسکے ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام پہلی ویمن کانفرنس کے دوسرے سیشن کے موضوع ”خواتین کو معاشی بااختیار بنانے “پر خطاب کرتے ہوئے کیا ۔انہو ں نے مزید کہا کہ عورتوں کو ان کے حقوق نہ دینا انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے آج کے اس جدید دور میں بھی بہت سے ممالک کے لیڈران خواتین کے حساس موضوع پر بات نہیں کرنا چاہتے ۔پاکستان میں بینک آج بھی خواتین کو کریڈٹ دینے سے گریز کرتے ہیںجس کےلئے میں نے اپنے دور میں تمام بینکوں کو پابند کیا کہ وہ خواتین کو سروسز دیں اس مسئلے کے مکمل خاتمے کےلئے باقاعدہ ایک مشترکہ میکنزم بنانے کی ضرورت ہے ان تمام کوششوں کے باوجود بینکوں سے کریڈٹ حاصل کرنے والی خواتین کی تعداد صرف 7فیصد ہے ۔ترقی یافتہ اقوام کی ترقی میں خواتین کا کردار نمایاں ہے پہلے معاشرے میں عورتوں نے ترقی کی اس کے بعد ہی ملک آگے آیا۔ڈاکٹر شمشاد اختر کا کہنا تھاکہ ملک میں خواتین محنت کشوں کی تعداد بڑھانے کی اشد ضرورت ہے جاپان جیسا ترقی یافتہ ملک بھی اس پر متفق ہے کہ خواتین کو ملازمتوں کے مزید مواقع دیئے جائیں۔ اوورسیز چیمبر میں خواتین کو ملازمت کے مواقع دینے کےلئے شعور موجود ہے ۔سسٹین ایبل ڈولپمنٹ گولز کو پاکستان نے 2015ءمیں باقاعدہ طور پر اپنایااورا سے فائدہ اٹھانے کےلئے پارلیمنٹ میں بھی بحث ہوئی لیکن اس پر سرمایہ کاری بالکل نہیں کی گئی ۔ایک سوال کے جواب میں انہو ں نے کہا کہ خواتین کو اپنے حقوق کےلئے خود محنت کرنا ہو گی فیملی ویلیو کو نظر انداز کرنا لڑکیوں کےلئے ممکن نہیں لیکن والدین کی سپورٹ زندگی کے ہرموڑ پر ان کےلئے انتہائی اہمیت کی حامل ہوتی ہے ۔سیشن کی نظامت کے فرائض احمد جلال نے سرانجام دیئے۔
کراچی ( )عورت فاﺅنڈیشن کی ریذیڈنٹ ڈائریکٹر مہناز رحمان کا کہنا ہے کہ مردوں کی عورت کے بارے میں منفی سوچ معاشرے کی تنز لی کاباعث ہے عورت مرد کےلئے مفت کی غلام نہیں آج کے دور میں یہ بہت بڑا ایشو ہے کہ مرد روزگار کے معاملے میں کمزور ہیں جس کی وجہ سے خواتین اس وقت دوہرا دباﺅکا شکار ہیں ۔ان خیالا ت کا اظہار انہوں نے آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام پہلی ویمن کانفرنس کے پہلے سیشن ©”میری زندگی میرا اختیار “سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ان کا کہنا تھا کہ معاشرتی بوجھ اٹھانے کے باوجود عورت کے حقوق کو بالکل نظر انداز کردیا جاتا ہے جس سے معاشرے میں مسائل پیدا ہورہے ہیں ۔اس کے سدباب کےلئے ضروری ہے کہ خواتین کو اپنے حق کے بارے میں مکمل آگاہی ہو۔عارفانہ ملاح نے کہا کہ عورتوں کے حقوق کی بات کرتے ہی معاشرے کے غیر سنجیدہ رویئے کا سامنا کرنا پڑتا ہے عورت کو اپنے تما م رشتوں کےلئے اختیار ہونا چاہئے میر ی جسم میری مرضی نعرہ نہیں بالکل یہ مکمل زندگی ہے اس کو منفی نہ لیا جائے ۔انٹرنیشنل پالیسی ،نصاب اورمعاشی پالیسیوں میں عورتوں کے کردار کےلئے نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے ۔عورت مارچ کے مطالبات بالکل جائز ہیں لیکن اس کے بارے میں غلط پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے ۔ہمارا مقصد جمہوری حقوق کا حصول اور معاشی طور پر پاکستان کو مستحکم کرنا ہے ۔ہمارا معاشرہ عورت کی برابر ی کو تسلیم کرنے سے قاصر ہے ۔ شہناز راہو نے کہا کہ حاری عورتوں کے حقوق کی ہمارے ہاں مسلسل پامالی کی جارہی ہے پور ا دن کام کرنے کے باوجود انہیں اُجرت سے محروم رکھا جاتا ہے ا ور واپس گھر آکر انہیں گھر کی دیکھ بھال کرنا پڑتی ہے زچگی کے دوران بھی ان کے خاوند ان کی دیکھ بھال نہیں کرتے کیایہ ظلم نہیں اس پر ہم سب کو مل کر آواز اٹھانے کی ضرورت ہے ۔ہاری عورت سرمایہ دار طبقے کے استحصال کا شکار ہے ۔اگر ہاری عورتوں کو دیکھیں تو انکا رنگ دھوپ اور کھیتوں میں کام کرکرکے بالکل سیاہ ہوجاتا ہے ۔معروف رقاصہ شیما کرمانی نے کہا کہ پاکستان میں ہر تین منٹ میں ایک عورت زچگی کے دوران بہتر سہولیا ت نہ ملنے سے جان کی بازی ہار جاتی ہے تشدد کے 97فیصد کیس عورتوں کے رجسٹرڈ ہوئے ہیں جس سے معاشرے کی کم تری کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ہماری جدوجہد مردوں کے خلاف نہیں بلکہ سوچ اور سسٹم کے خلاف ہے ۔فاطمہ حسن نے کہا کہ صدیوں پہلے مفروضوں کی بنیاد پر عورت کے بارے میں جو کہا گیا آج بھی ہمار ا معاشرہ اس پر کار بند ہے عورت معاشرے کا کمزور ٹارگٹ ہے میڈیا کا عورت کو کمزور سمجھنا افسوس ناک امر ہے اس کو تبدیل کیا جانا چاہیے۔ ہمیں صنفی کردار کو بدلنا ہوگا عورتوں کو حصہ ہر شعبہ پر نام کےلئے نہیں باقاعدہ طور پر دینا ہوگا ۔سیشن کی نظامت کے فرائض عظمیٰ الکریم نے سرانجام دیئے ۔

کراچی ( )آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام ”فرسٹ وومن کانفرنس“ میں ”رول آف میڈیا اِن وومن ایمپاورمنٹ“ سیشن کا انعقا دکیاگیا، مقررین میں مظہر عباس، ثانیہ سعید، تسنیم احمر، بی گل اور بختاور مظہر شامل تھے جبکہ سیشن کی نظامت کے فرائض معروف صحافی وسعت اللہ خان نے سرانجام دیئے۔ ”رول آف میڈیا اِن وومن ایمپاورمنٹ“ میں خواتین کے میڈیا میں کردار کے حوالے سے سیرحاصل گفتگو کی گئی۔ اس موقع پر سینئر صحافی مظہر عباس نے کہاکہ میڈیا میں ایک زمانے میں خواتین رپورٹرز کا تصور نہیں تھا لیکن زمانہ بدلا اور چینلز آنے کے بعد میڈیا میں خواتین کی نمائندگی میں اضافہ ہوا۔ خواتین صحافیوں نے ہر قسم کے حالات میں کام کرکے ثابت کیا کہ وہ کسی سے کم نہیں ہیں۔ سیشن سے گفتگو کرتے ہوئے معروف ادکارہ ثانیہ سعید نے کہاکہ جنسی ہراسگی کے قوانین پر جگہ ہونے چاہیے چاہے شوبز ہو یا میڈیا، شوبز کی شخصیات کو زبردستی پبلک پراپرٹی بنادیا جاتا ہے۔ کوئی انسان پبلک پراپرٹی نہیں ہوتا۔ انہوں نے کہاکہ ڈراموں کی شوٹنگ کے دوران بھی خواتین اداکاروں کو جنسی ہراسگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس موقع پر بی گل نے کہاکہ مجھے کہا جاتا ہے کہ میں بہت بولڈ لکھتی ہوں ہراسمنٹ تو بچپن سے ہی شروع ہوجاتی ہے۔ میری خواہش ہے کہ ایسے موضوعات پر ٹی وی مالکان کو بھی حصہ بنایا جائے جو یہ سمجھتے ہیں کہ صرف منجن سنیما ہے چاہے وہ جیسے بھی بکے۔سیشن میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے بختیاور مظہر نے کہاکہ تھیٹر اپنا پیغام پہنچانے کے لئے دوسرے تمام ذرائع سے زیادہ طاقت ور ذریعہ ہے ، میں ایک عرصے سے تھیٹر کررہی ہوں لیکن افسوس ہے کہ اندرونِ سندھ کی کوئی خاتون یا لیاری جیسے علاقے کی کوئی خاتون تھیٹر کا حصہ نہیں بنی یہاں جو بھی لڑکیاں آتی ہیں، انہوں نے مزید کہاکہ سوشل میڈیا ایک اژدھا بن چکا ہے جہاں آپ اپنی بات کرلیں تو قوانین کے ردِعمل کے لیے جگر ہونا چاہیے۔ اس موقع پر تسنیم احمد نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ میڈیا میں ہمارے کچھ ایسے حضرات بھی ہیں جنہیں ایسے موضوع دے دیئے جاتے ہیں جس کے بارے میں انہیں کچھ پتا ہی نہیں ہوتا۔ ایسے اینکرز حضرات کو ہمیں دیکھنا بند کرنا پڑے گا۔ کٹہرے میں صرف ہم نہیں وہ تمام لوگ بھی ہیں جو ایسے منفی پروگراموں کو مشہور کرنے کا سبب بنتے ہیں۔
کراچی ( )آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام ”فرسٹ وومن کانفرنس“ کے پہلے روز کا اختتام تھیٹر، شیما کرمانی کے رقص اور آرٹس کونسل کے میوزیکل بینڈ کی شاندار پرفارمنس سے ہوا۔ فرسٹ وومن کانفرنس کے مختلف سیشنز کے بعد ثمینہ نذیر کا تھیٹر ”کلو“ اور عظمیٰ سبین کا تھیٹر ”حقیقت“ پیش کیاگیا۔ فنکاروں کی زبردست اداکاری کو حاضرین نے بے حد سراہا۔ ”فرسٹ وومن کانفرنس“ کے پہلے دن کی اختتامی تقریب کو معروف رقاصہ شیما کرمانی کی پرفارمنس نے چار چاند لگا دیئے۔ آخر میں آرٹس کونسل میوزک اکیڈمی کے میوزیکل بینڈ ”دی بینڈ“ کی پرفارمنس نے میلہ لوٹ لیا۔ موسیقی کے دلداہ افراد خوب لطف اندوز ہوئے اور میوزیکل پرفارمنس پر داد دیئے بغیر نہ رہ سکے۔
کراچی( ) مختلف سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھنے والی پاکستان پارلیمنٹ کی رکن خواتین نے کہا کہ ملک میں خواتین کے حقوق کے حوالے سے پہلے کے مقابلے میں بہتری آئی مگر اب بھی صورت حال بہت خراب ہے پارلیمنٹ میں بیٹھی ہر خاتون سمجھتی ہے مخصوص سیٹ اور براہ راست جیت کر آنے والوں کی حیثیت مختلف ہے مگر ابھی بھی ملک کا مائنڈ سیٹ ایسا ہے خاتون براہ راست کامیاب ابھی نہیں ہو سکتی ۔عوام میں یہ غلط تاثر دیا جا رہا ہے کہ اسلام مردوں کا مذہب ہے ۔ پارلیمنٹ میں خواتین کا حصہ کم سے کم 30 فیصد ہونا چاہئے ۔اس سے بہتری آئے گی ۔ان خیالات کا اظہار خواتین پارلیمنٹیرین نے کراچی آرٹس کونسل میں منعقدہ فرسٹ وومن کانفرنس کے سیشن پارلیمنٹ میں خواتین کا کردار سے گفتگو کرتے ہوءے کیا…خطاب کرنے والی خواتین پارلیمنٹیرین میں کشور زیرہ ۔ ایم کیو ایم ،عظمی بخاری، مسلم لیگ ن ۔سسی پلیجو ۔ پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی ممبر قومی اسمبلی غزالہ سیفی شامل تھی ۔ عظمی بخاری نے کہا کہ مخصوص سیٹ پر منتخب ہونے والی عورتوں کی صورت حال ان خواتین سے بہتر ہے جو موروثی سیٹ پر منتخب ہوتی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ عورتوں کو بھی براہ راست انتخابات کے ذریعے آنا چاہیے، میں اپنی پارٹی میں بھی بات کر رہی ہو اور دیگر پارٹیوں کو بھی اس کو نصب العین بنانا چاہتے۔ عظمی بخاری نے کہا کہ پہنجاب اسمبلی میں مجھے اسپیکر وقت ہی نہیں دیتے معلوم نہیں ان کو کیا خوف ہے، پاکستان کے تمام ایوانوں میں عورتوں کی کارکردگی مردوں کے مقابلے میں بہتر ہے ۔انہوں نے کہا کہ ہمیں 15 سال لگے گھریلو تشدد کا بل منظور کرانے میں لگے ۔ انہوں نے کہا کہ مریم نوازشریف کے سیاست میں آنے کے بعد ن لیگ میں فیصلہ سازی میں تیزی اور آسانی پیدا ہوئی ۔مشکلات یہ ہیں کہ ہر فرقہ کے علماء کی تشریح اپنی اپنی ہے اس کی وجہ سے زیادہ مشکلات ہوتی ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ سماجی مسائل اور سیاست کو الگ الگ ہونا چاہئے۔سسی پلیجو نے کہا کہ پاکستان قدیم تہذیب کا خطہ ہے اس کے باوجود پاکستان میں اس حوالے بہتری آئی ہے، اور پیپلز پارٹی کی خاتون کا وزیر اعظم آنا ایک بڑا کارنامہ ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ملکی تاریخ میں پیپلز پارٹی نے خواتین کے حقوق کے لئے خواتین کو میدان عمل میں لائی ۔ انہوں نے کہا کہ ابھی بھی پارلیمنٹ میں خواتین کا حصہ پورا نہیں مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہم کوشش نہیں کر رہے یا آگئے نہیں بڑے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ مارچ خواتین کا حق ہے قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ میں 50 فیصد نمائندگی نہیں ہے جو ہیں انہوں نے یہ ثابت کیا کہ وہ پارلیمنٹ میں کردار ادا کرنے کے حوالے مردوں سے کم نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ سندھ میں بھی خواتین کا قتل ہوتا ہے کارو کاری کی وجہ سے ہوتا ہے مگر یہ ایک معاشرتی مسئلہ بھی ہے اس پر زیادہ بات ہونا چاہئے کیوں کہ لوگ اس کو چھپاتے ہیں، اور کوئی گواہی ہی نہیں دیتا یہ بے رحم جرم ہے ابھی بھی بہتری نہیں ہوئی ۔ اس حوالے سے قانون سازی بہتر طریقے سے نہیں آئی اس کے باوجود سندھ اسمبلی نے اس حوالے سے مثالی کام کیا ۔کشور زہرہ نے کہا کہ فہمیدہ مرزا کے دور میں قومی اسمبلی میں زیادہ قانون سازی ہوئی انہوں نے زیادہ کام کیا انہوں نے کہا کہ مائنڈ سیٹ تبدیل نہیں ہوتا جس کی وجہ سے خواتین کے حقوق پر جو قوانین بنے ان پر عمل نہیں ہوتا انہوں نے کہا کہ میرا آئیڈیل حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ان کے اعلان سے قبل ہمیں زندہ دفن کر لیا جاتا تھا، تحریک انصاف کی غزالہ سیفی نے کہا کہ ہمارے پاس تعلیم یافتہ سوچ پیچھے اور ایک اور سوچ بڑھ رہی ہے مگر میڈیا کو کردار ادا کرنا چاہیے اور عوامی کے حقیقی مسائل اجاگر ہونا چاہئے ۔ بہت بہترین قانون بنے ہیں مگر ان پر عملدرآمد کو یقینی بنانے ہو گا ۔پارلیمنٹ کا اصل ذمہ داری لوگوں کو حقوق دیں۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ میں خواتین کا اثر پڑھ رہا ہے مگر 50 فیصد آبادی کو کم از کم 30 فیصد نمائندگی ہونا چاہئے ۔ عورتوں کو اسلام میں زیادہ حقوق دئے ہیں ۔ مگر عوام تک یہ پیغام پہنچایا جاتا ہے کہ اسلام مردوں کا مذہب ہے مردوں کو چاہئے کہ وہ سیاست میں عورتوں کی حوصلہ افزائی کریں اس سے بہتری آئی گی۔
کراچی( )صوبائی وزیر برائے ترقی ونسواں سیدہ شہلارضا نے کہاہے کہ عورت کو معاشی طور پر مضبوط کرکے اسے تشد د سے بچایا جاسکتاہے معاشرے میں انصاف کےلئے ہرایک کو مل جل کر جدوجہد کرنا ہوگی۔ کاروکاری اور تیزاب پھیکے جانے کے متعد د کیسزکراچی جیسے بڑے شہر سے بھی رپورٹ ہوئے ۔قوانین کو عوام تک پہچانے کی اشد ضرورت ہے ۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام پہلی ویمن کانفرنس کے دوسرے دن تیسرے سیشن ”عورت پر تشدد کیوں “ سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔انہوں نے کہاکہ بارہ سالہ پارلیمانی کیرئیر میں خواتین ایشوز کو ہمیشہ متنازعہ ہوتے دیکھاتشدد صرف مارنا نہیں بلکہ مارنے کی وارننگ دینا تشدد کے زمرے میں آتا ہے اس پر بھی قانون سازی کرنے کی کوششیں کیں ۔آگاہی پھیلانے کےلئے این جی اوز صرف ان عورتوں کے ساتھ کام کرنا چاہتی ہیں جو فائیو اسٹار ہوٹل میں آسکتی ہیں ۔سندھ میں بچوں کی جبری شادی اور عورتوں کے تحفظ کےلئے بنائے گئے قانون پر ایک بھی اعتراض نہیں کیا گیا ۔ایک سوال کے جواب میں صوبائی وزیر نے کہا کہ خواتین کےلئے بنائے گئے قوانین مردوں کو بچانے کےلئے ہیں ہمارے ہاں فیملی پلاننگ کا فقدان ہے ۔حکومت صرف رپورٹ پر مدد کرسکتی ہے لیکن گھر کے اندر داخل نہیں ہوسکتی ۔امیر لوگ مساجد،ہسپتال تو تعمیر کرا دیتے ہیں لیکن بہن ،بیٹی کو حق نہیں دیتے ۔قانون کی کتاب روز بروز موٹی ہوتی جارہی ہے لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہورہا۔سارہ ملکانی نے کہاکہ گھریلو تشدد کے خلاف پولیس اور ججز کو آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے کافی عرصے تک کیسز رپورٹ نہیں ہوئے خواتین پاکستان میں ذہنی و جسمانی دونوں تشد د کا شکار ہیں کورٹ سسٹم میں وقت لگ جانے کی وجہ سے عورتوں کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے پولیس سے بھی خواتین کو مدد نہیں ملتی ۔ہمارے ادارے گھریلو تشد د کے کیس میں فریقین پر صلاح کےلئے دباﺅ ڈالتے ہیں ۔تشدد کو روکنے کےلئے پروگرام ،پالیسی ،بجٹ کی ضرورت ہے ۔نازش بروہی کا کہنا ہے کہ عوام کی بیورو کریسی تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے پارلیمان کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے ریاست کے ساتھ عورتوں کا جڑنا کم ہونے کی وجہ سے مسائل پیدا ہورہے ہیں ۔عورتوں پر تشدد مزاحمت کی نشاندہی ہے کیونکہ ہمارے معاشرے و ریاست میں ہمیشہ بہتری کےلئے کی جانے والی تبدیلی کو مزاحمت سے روکا جاتا ہے ۔جمہوری سوچ کی ہمیں ذاتی زندگی میں بھی ضرورت ہے ۔آدھے سے زیادہ کیسز میڈیا میں رپورٹ نہیں ہوتے ۔خواتین ریاستی اداروں کے پاس مدد کےلئے تب جاتی ہیں جب وہ بالکل ”پوائنٹ آف ڈیتھ “کی نہج پر پہنچ جاتی ہیں ۔معروف صحافی غازی صلاح الدین نے کہا کہ گھریلو تشدد بہت زیادہ ہیں اس کے بارے میں غلط اعداد و شمار پیش کئے جاتے ہیں ۔غربت اس مسئلے کی بڑی وجہ ہے ۔کمزور مرد اپنا غصہ صرف عورت پر اترتا ہے ۔مڈل کلاس اور پڑھے لکھے گھرانوں میں بھی تشدد کی مثالیں موجود ہیں ۔تشدد ہمارے نظام میں موجو د ہے ۔سیاست میں مذہبی انتہاپسندی کو پلا گیا ہمارے معاشر ے میں دلیل سے کام نہیں چلتا اس کےلئے ہمیں پاور ایلیولیشن کی ضرورت ہے ۔
( )کراچی آرٹس کونسل کے زیر اہتمام فرسٹ وومن کانفرنس کے دوسرے روز تعلیم بنیادی حق سیشن کا انعقاد۔سیشن کے مقررین میں امینہ سید،صادق صلاح الدین،رانا حسین،توصیف احمد خان اور ڈاکٹر ریاض شیخ شامل تھے۔سیشن کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر جعفر احمد نے ادا کیے۔ اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے صادق صلاح الدین کا کہنا تھا کہ بچیوں کی تعلیم حاصل کرنے کی خواہش کو حسرت بنا دیا گیا ہے ۔ سندھ میں اسکول تو موجود ہیں لیکن وہ گھروں سے اتنی دور بنائے گئے ہیں کہ بچے اسکول جا ہی نہیں پاتے ۔تعلیم بنیادی حق ہے جسے ایک بنیادی حسرت بنادیا گیا ہے ۔اس موقع پر امینہ سید نے کہا کہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہمارے ملک میں ڈھائی کروڑ بچے اسکول ہی نہیں جاتے اور جو جاتے ہیں اُنہیں معیاری تعلیم نہیں مل پاتی۔ہمارے ہاں پرائیوٹ اسکول فیکٹریز بن چکے ہیں لیکن یہ اچھی بات ہے کہ کچھ پرائیوٹ اسکولز مقابلے کی فضا کی وجہ سے معیار کو برقرار رکھا ہوا ہے اور بچے کچھ نہ کچھ حاصل ضرور کر رہے ہیں ،سیشن سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر ریاض شیخ نے کہا کہ ہمارے نظامِ تعلیم کی بنیاد ہی ٹھیک نہیں ہے جب تک بنیاد مضبوط نہیں ہوگی تب تک عمارت بھی کیسے کھڑی رہ سکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ انڈیا کی جامعات دنیا بھر میں مشہور ہورہی ہےں لیکن ہمارے ہاں ایسی جامعات ہیں ہی نہیں۔اس موقع پر رانا حسین نے کہا کہ موجودہ دور میں نا تجربہ کار اساتذہ کو سرکاری نوکریاں دے دی جاتیں ۔ہمارے ہاں تعلیمی نظام میں پالیسیز اور ایکشن میں تضاد ہے۔
نا تجربہ کار اساتذہ کو جاب دینے کے بعد ان کی تربیت کی جاتی ہے تو وہ کس طرح بچوں کے لئے مشعلِ راہ ثابت ہونگے۔سیشن سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر توصیف احمد خان نے کہا کہ سندھ اسمبلی ہو یا پارلیمنٹ کہیں بھی تعلیم کے معیار پر بات نہیں کی جاتی ۔ہر دو مہینے بعد وزیر تعلیم بدل دیے جاتے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ یہ بات ریاست کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں کہ اسکولوں کی حالت بدلنی ہے ۔ کراچی میں حکومتی نا اہلی کے باعث سرکاری اسکول و کالجز ختم ہوتے جارہے ہیں۔
کراچی ( )انسانی حقوق کے کارکن آئی اے رحمان کاکہنا ہے کہ پاکستان میں تمام حکومتوں نے مزدور وخواتین تحریکوں کو یکجا کرنے کے بجائے ان کو منتشر کرنے پر زور دیا جس کی وجہ سے آج معاشرے و معیشت دونوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔خواتین ورکرز کو مسائل کے حل کےلئے مشترکہ جدوجہد کرتے ہوئے مین اسٹریم میں آنے کی ضرورت ہے۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام پہلی ویمن کانفرنس کے دوسرے دن پہلے سیشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔انہوں نے کہا کہ حکومت کو قانون سازی کرتے وقت مزدوروں سے مشاورت کرنی چاہئے تاکہ مسائل کا بہتر طور پر سدباب ہوسکے ۔خواتین کے مسائل کو ٹریڈ یونینز نے بھی نظر انداز کردیا لیکن اس کے باوجود جنرل ٹریڈ یونین لیڈر شپ میں چند خواتین نے نام پیدا کیا۔ ملک کی 95فیصد عورتیں کام کرتی ہیں لیکن اسکے باوجود افسوس ناک امر یہ ہے کہ پاکستان میں اب بھی بے شمار بیویاں روٹی کپڑے کی ملازم ہیں ۔مزدور رہنما فرحت پروین نے کہاکہ معاشرے اور خاندان میں عورت کی نہ برابری کا نظام موجود ہے خواتین کے حالات کی تبدیلی سوچ کے بدلنے سے ممکن ہوسکے گی ہر وہ کا م جس میں طاقت کا استعمال ہو وہ عورت کو بغاوت پر مجبور کرتا ہے پاکستان کا آئین عورت اور مرد کو تفریق نہیں کرتا ۔نادرا اپنے ڈیٹا میں خواتین کے نام کا اندراج کرنے کیساتھ ان کا کام بھی لکھے۔حقوق کے حصول کےلئے ہمیں منظم ہونا ہوگا ۔لیڈی ہیلتھ ورکر رہنما حلیمہ لغاری کا کہنا تھا کہ ہمیں ابھی تک اتوار کی چھٹی نہیں دی جاتی ماضی میں متعدد بار ایساہوا کہ ہماری ورکرز کو چھ ماہ تک تنخواہ کی ادائیگی نہیں کی جاتی تھی 2008ءمیں ہماری تحریک کو نظر انداز کیا گیا سپریم کورٹ میں بھی کیس داخل کرنے بعد سنوائی نہیں ہوئی اور ہمیں پولیس کی مارپیٹ اور دہشت گردی کے مقدمات کا سامنا کرنا پڑا لیکن ہماری جدوجہد جاری رہی جس کے نتیجے میں آج ہماری لیڈی ہیلتھ ورکرز 28ہزار روپے تنخواہ لے رہیں ہیں ۔ماہی گیر رہنما فاطمہ مجید نے اپنے خطاب میں کہا کہ موسم کی تبدیلی ،آلودگی اور ریاستی قوانین کی وجہ سے ہمارے شعبہ کو بے انتہا مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ہماری عورتوں کی بہت بڑی تعداد فیکٹریوں میں کام کرنے پر مجبور ہے ابراہیم حیدری میں 70فیصد گھر خواتین چلارہی ہیں پاک بھارت سرکریک تنازعے کی وجہ سے ہماری ماہی گیری کو بھی مسلسل نقصان پہنچ رہا ہے مینگروز نہ ہونے کی وجہ سے پانی ڈائریکٹ ہماری آبادیوں کو ہٹ کرتا ہے ۔پاکستان میں آج تک ماہی گیری کےلئے کوئی پالیسی نہیں بنائی گئی۔گھر مزدور خواتین رہنما زہرا اکبر خان نے کہا کہ ہوم بیس ورکر کا کوئی مستند ڈیٹا پورے ملک کو موجود نہیں حکومتی اراکین کو اس بات کا پتہ نہیں کہ خواتین کس طرح کام کررہی ہیں عورت اور بچے دنیا بھرمیں سب سے سستے مزدورہیں سندھ میں 50لاکھ گھر مزدور موجود ہیں سرمایہ داری نظام میں کام کرنے والی خواتین مزدور پتھری اور ٹی بی جیسے مہلک امراض کا شکارہیں ۔انہوں نے میڈیا سے درخواست کی کہ مزدوروں کے مسائل کو مین اسٹریم میں جگہ دی جائے ۔سعیدہ خاتون نے کہا کہ بلدیہ فیکٹری حادثے کے باوجود آج بھی فیکٹریو ں میں حفاظتی و لیبر قوانین پر عمل نہیں کیا جاتا۔شہداءکی فیملی کو صرف مسائل کا سامنا کرنا پڑا اور مختلف سیاسی تنظیموں کی جانب سے ہمیں بھی دھمکیاں دیں گئیں ۔2015ءمیں ہائی کورٹ میں کیس جیتنے کے بعد جرمن اور اطالوی کمپنی کے خلاف آواز اٹھائی اور 52کروڑ روپے حاصل کئے ۔اس دوران سانحہ بلدیہ ٹاﺅن فیکٹری کے شہدا کو خراج عقید ت پیش کرنے کےلئے گلوکار جواد احمد کا خصوصی گانا بھی پیش کیا گیا ۔کشور ناہید نے کہا کہ برتن سازی میں ہماری خواتین بہترین کام کررہی ہیں لیکن ان کی پروڈکٹ پر میڈ ان پاکستان درج نہیں لکھا جاتا بلکہ کسی اور ملک کے نام کا ٹیگ لگا دیا جا تا ہے جو سراسر زیادتی ہے ۔سیشن کی نظامت کے فرائض پائلر کے ڈائریکٹر کرامت علی نے سرانجام دیئے ۔
کراچی( )صدر پاکستان نیشنل فورم آف ویمن ہیلتھ ڈاکٹر شیر شاہ نے کہا ہے کہ خواتین کی صحت میں بہتری تعلیم کی بدولت ممکن ہے ۔معاشرے میں عورتوں کے استحصال کو صرف ان کی معاشی طاقت ہی روک سکتی ہے ۔ معاشرے کو خواتین کی ضروریات اور ان کے مسائل کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔وہ ہفتے کے روز آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں منعقدہ پہلی ویمن کانفرنس کے پانچویں سیشن کے عنوان © ©”صحت مند عورت اور صحت معاشرہ “ سے خطاب کررہے تھے ۔انہوں نے کہا کہ خواتین کو اپنے آپ کو منوانے کےلئے پروفیشنل تعلیم حاصل کرنا ہوگی تاکہ وہ بہترین ازدوجی زندگی گزار سکیں ۔عورت کے بارے میں آگاہی پروگرام کو بے ہودہ کہہ کر رد کئے جانے سے معاشرے کی نئی نسل کو نقصان ہو تا ہے ۔مرد کا عورت کی سوچ کو قبول نہ کرنا بھی بیشتر معاشرتی مسائل کی جڑہے۔ ڈاکٹر ہارون احمد کا کہنا تھا کہ پاکستان میں خواتین فیملی و معاشرتی دباﺅ کا شکار ہیں نوجوان لڑکیوں کا علاج کےلئے جادو ٹونے پر بھروسہ کرنا بالکل غلط ہے ۔سینے کے سرطان سے بچنے کےلئے تمام نوجوان لڑکیوں کی آگاہی ضروری ہے ۔اس بارے میں والدین کو بھی اپنی بیٹی کا ساتھ دینا چاہئے ۔ڈاکٹر راحیلہ کا کہنا تھا کہ عورت کے حاملہ ہونے کے بعد اس کے تین سال کی طاقت کم ہوجاتی ہے آج ہماری خواتین اپنی فیملی کےلئے دوہری ذمے داریاں ادا کررہی ہیں آج کی لڑکیاں زچگی کےلئے خود کو تیار نہیں کرتیں ،فاسٹ فوڈ حاملہ خواتین کےلئے انتہائی مضر ہے ۔انہوں نے وزارت صحت سے مطالبہ کیا کہ نئے شادی شدہ جوڑوں کی آگاہی کےلئے جناح اور سول اسپتال میں ”آگاہی کلینک “شروع کئے جائیں ۔ڈاکٹر روفینہ سومرو نے کہاکہ سینے کے سرطان میں مبتلاہونے والی خواتین کا معاشرتی دباﺅ کی وجہ ان کے علاج میں روکاوٹ بنتی ہے اور اکثر کیسز میں یہ دیکھا گیا ہے کہ ان کا جنازہ اٹھ جاتا ہے لیکن ان کو علاج کی سہولت میسر نہیں آتی ۔ڈاکٹر عائشہ نے کہاکہ زچگی یا پریڈز کے بارے میں لڑکیوں کو آگاہی نہ ہونے سے ان کو نقصا ن ہوگا ۔معاشرے میں لڑکیوں کو بلغوت کی تعلیم نہ دینے سے مسائل جنم لے رہے ہیں جس کےلئے والد ین کو اپنی اولاد کی بہتری کےلئے انہیں باقاعدہ آگاہی دینی ہوگی ۔نظامت کے فرائض ڈاکٹر ہمامیر نے سرا نجام دیئے ۔
کراچی() آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں ”فرسٹ وومن کانفرنس“ کے آخری روز ”بشریٰ انصاری کے ساتھ گفتگو“ سیشن کا انعقادکیاگیا، سیشن میں معروف اداکار یاسر حسین نے میزبانی کے فرائض سر انجام دیئے ۔معروف اداکارہ بشریٰ انصاری نے اپنی زندگی کے نشیب و فراز حاضرین کے گوش گزار کیے، انہوں نے کہا کہ خواتین موجودہ دور میں تمام شعبہ ہائے زندگی میں بہتر کام کررہی ہیں جبکہ ہمارے دور میں ایسا ممکن نہیں تھا۔موجودہ دور میں خواتین کےلئے کافی بہتری آئی ہے ۔تعلیم و شعور کی کمی کے باعث ایک طبقہ آج بھی خواتین کو باہر نہ کام کرنے کے حق سے محروم رکھے ہوئے ہے ۔ریڈیو پاکستان کے لیٹریری لوگوں کے ٹی وی پر آنے سے انڈسٹری کو فائدہ ہوا اور ماضی قریب میں پاکستان ٹیلی ویثرن نے بیشتر قابل فخر پروگرام اپنے حاضرین کےلئے پیش کئے ۔میڈیا کو موجودہ دور میں فوکس ہوکر کام کرنے کی ضرورت ہے شوشل میڈیا سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہورہاہے ۔ملکہ ترنم نور جہا ں سے ملاقات کے دوران ان کے گائے ہوئے گانے سنانے کا شرف مجھے حاصل ہے ۔پڑوسی ملک بھارت سے فلم آفر ہوئی پلوامہ حملے کے باعث نہ کرسکی ۔ماضی میں خاندانی پریشر کی وجہ سے فلم نہ کرسکی لیکن اب صرف ماں کا کردار ادا کررہی ہوں ۔میوزک آج بھی میر ا پہلا پیار ہے بچپن میں والد کو گانے سنایا کرتی تھی ۔والد کے میوزک کے شوق کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے والدہ کےلئے گھر پر گائیکی کے استاد رکھے ۔ انور مقصود کے ساتھ کام کرکے کافی کچھ سیکھنے کا موقع ملا ۔معین اختر جیسا فنکار کا نعم البدل ملنا مشکل ہے ان کا موزانہ کسی دوسرے کے ساتھ کرنا درست نہیں ۔قاضی واجد نے ہمیشہ میر ی رہنمائی کی ان کی باتیں آج بھی میرے ذہن میں نقش ہیں ۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here