قرضہ عوام کےنام پرعیاشیاں ارباب اختیارکی۔۔

0
1891

تجزیہ:سیدمحبوب احمدچشتی

پاکستانیوں کی اکثریت نے جب سے ہوش سنبھالا یہ ہی سنا کہ ہر پاکستانی ہزاروں روپے کا مقروض ہے جو اب فی پاکستانی لاکھوں روپے تک پہنچ گیا ہے مگر جب بھی کوئی حکومت آئی اس کے حکام بالا چاہےوہ سیاسی ہوں یا سرکاری ان کے طرز زندگی اور اخراجات سے ایسا محسوس نہیں ہوا کہ ہم قرضہ دار قوم ہیں بلکہ یہ ہی لگا کہ شاید ہم دنیا کو قرضہ دینے والی قوم ہیں، وزیراعظم پاکستان عمران خان نے سادگی کو فروغ دیکر اخراجات کنٹرول کرنے کی بات کی اور اپنے طور پر وہ سادہ مزاج ضرور دکھائی دیتے ہیں لیکن ان کی کابینہ میں شاہانہ طرز عمل اب بھی نمایاں ہے ریاست مدینہ کا تصور دینے سےقبل وزیراعظم پاکستان کو پہلے یہ بتایا نہیں گیا کہ سود پر چلنے والے ممالک کی ترقی ممکن ہی نہیں ہے کیونکہ جب اللہ اور اس کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ قرار دئیے جانے والے کام سود کو ختم کئے بغیر رحمتوں کا نزول ممکن ہی نہیں ہے بنیادی نکتہ ہی درست نہیں ہے تو کیسے ممکن ہے کہ ریاست مدینہ قائم ہوسکے اور اس کے ساتھ ہی ملک کو چلانے کیلئے سودی قرضوں پر انحصار کیا جا رہا ہے دوسری جانب ملک میں ایلیٹ کلاس کی ہمدردیاں عام عوام سے منسلک کم ہی ہیں پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہیں لیکن ان پانچوں انگلیوں کو برابر کرنے کیلئے اقدامات کئے گئے تو ریاست مدینہ کا تصور عملی شکل اختیار کر سکتا ہے اس کیلئے اس ملک کی اشرافیہ کہلانے والے لوگوں کو صرف یہ یقین دہانی کروانی ہوگی کہ پاکستان کو قرض کی لعنت سے نجات دلا تمہارا پیسہ صرف قرضہ اتارنے میں استعمال ہوگا اس سے قبل حکومتوں کو چاہے وہ سینیٹ، قومی وصوبائی اسمبلیوں یا بلدیاتی طرز پر ہو اپنی عیاشیوں کو محدود مدت کیلئے قربان کرنا ہوگا ایسا ہوگیا تب ہی ممکن ہے کہ ہر طرف آسانیاں ہی آسانیاں ہوں ہمیں خارجی امور کی منظم پالیسی کے ساتھ صرف ایک بار پاکستان پر سب قربان کرنے کا عہد پورا کرنا ہے پیارے وطن پر جو قرضے ہیں گوروں کی غلامی میں زندگی بسرکرتے ہوئے غیرت وحمیت متاثرنہیں ہورہی ہے تو آئن، بائن،شائن پر مشتمل پورا لیکچر سننا پڑے گا نہ جانے کیوں یہ تاثر مضبوط ہوتا جارہا ہے حقیقی تبدیلی آپکی جی حضوری ،غلامانہ طرز فکر سے مزین شاندار طرز زندگی کی اور مستقبل کی ضمانت ہے اس حقیقی تبدیلی کے نام پر پاکستان کو ہم کہاں سے کہاں لیکر آگئے ہیں ہم اپنی زمہ داریاں نبھانے کے بجائے ہر طرح سے ہر کوئی مال بنانے میں لگا ہوا ہے ہمکو ہر چھوٹی سی بات پر غصہ آجاتا ہےایک دوسرے کی تذلیل کرنے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتے لیکن واہ رہے سوئی ہوئی قوم جب امریکی سینیٹر یہ کہتا ہے کہ پاکستانی ڈالر کے خاطر اپنی ماںتک کو بیچ دیتے ہیں کہاں چلی جاتی غیرت وغصہ کیوں انقلابی سوچ بیدار نہیں ہوتی کیوں ان ارباب اختیار سے سوال نہیں کیا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنی عیاشیوں سمیت اپنے مستقبل کو محفوظ کرنے کے لیئے قرضے لیکر ہمارے مستقبل کو کیوں غیر محفوظ بنادیا ہے جو حکومت آتی ہے وہ یہ کہ کر جان چھرالیتی ہے کہ یہ کئی سالوں کا گند ہے پانچ سال میں کیسے دور ہوگا ؟ جب عوام کو سہولیات نہیں دے سکتے ہو تو پہلے سے دوسری حکومتوں کا گند ہوتے ہوئے کیوں انتخابات لڑتے ہو کیوں حکومت بناتے ہو ناکارہ ناہل جاہل ذہنی غلامی سے مزین طرز حکومت کا شوق پورا کرنے کا حوصلہ نہیں ہے تو اس سیاسی کاروبار سے خود کو الگ کرلو یہ تاویلیں پیش نہیں کرو کہ کئی سالوں کا گند ہے اتنی جلدی صاف نہیں ہوگا اس گندسے مزین آلودہ نظام کے تحت الیکشن تو لڑ تے ہو حکومت بھی بناتے ہو لیکن بات جب ملک کو ترقی دینے اور عوام کو ریلیف دینے کی آتی ہے تو کئی سالوں کا گند یاد آجاتا ہے شاید اسی وجہ سے قلب کی گہرائیوں سے یہ بات نکلتی ہے تجربہ گاہ بنادیا ہے میرے وطن کوطفل مکتب طرز فکر پاکستانی سیاست میں خالص حکومت اور خالص اپوزیشن ایک خواب بنکر رہ گئی ہے اخلاقی اقدار سے محروم اس ملک کے کچھ ارباب اختیار اس صورتحال میں بہت خوش ہونگے کہ اب بڑے عہدوں کے لئیے صاحب اقتدار کا باکردار ہونا ضروری نہیں ہے قرضوں میں ڈوبا ہوئے اس ملک کی قسمت کے فیصلے محلات، اونچی پہاڑیوں،وسیع وعریض بنگلوں میں بیٹھے ہوئے تمام اشرافیہ کرینگے حق وسچ بولنے پر پابندی بھی قبول ہے بس ایک التجا ہے ان تمام کے تمام ارباب اختیار سے جو قوم کی قسمت کے فیصلے اندھیروں میں کررہے ہیں اس قوم کو معاشی دہشت گردی سے بچالیں کسی کی حثیت ختم کرنے کا سلسلہ اس ملک کی عوام کو احساس محرومی کی طرف لے جارہاہے ورنہ یہ تاثر مزید عوام کے دلوں میں بیدار ہوجائے گا کہ کسی مصنوعی قیادت سے معاملات کچھ حد تک کنٹرول کیئے جاسکتے ہیں مستقل بنیادوں پر زمینی حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے اصل قیادت کو سامنے لانا ہوگا یہ ہی وہ انقلاب ہوگا جس کا انتظار کیا جا رہا ہے کیونکہ جب ملک سودی نظام وقرضوں سے باہر آئے گا تو کرپشن کے کئی درخت جڑوں سمیت زمین بوس ہونا شروع ہو چکے ہونگے ملک کے ساتھ مخلص نہ ہونے کی وجہ سے اور ذاتی مفادات میں الجھائے گئے پاکستانیو کے ضمیر جاگ گئے تو ملک کی معاشی اور دفاعی پوزیشن مضبوط ہونا لازمی امر ہے اور اسی کو ابھرنے نہیں دیا جا رہا ہے خاص طور پر حکومتی اور سیاسی سطح پر پیسوں کی ریل پیل نہ رکنے سے معاملات درست ہی نہیں ہو پارہے ہیں.۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here