‏عظیم لیڈر قائد اعظم کی سالگرہ منائیے مگر نئے عہد کے ساتھ

0
1893

تحریر۔ نازیہ علی
آذادی کی قدر بند پنجرے کی ان قیدی پنچھیوں سے پوچھو جو اڑنا بھی چاہیں تو انکے پر کاٹ دیئے جاتے ہیں۔کشمیر اور فلسطین کے ان مظلوموں سے پوچھو جو آزادی کا سورج دیکھنے کیلئے نہ جانے کتنے رشتے کھو بیٹھے ہیں۔مگر میں دعا کرتی ہوں ان تمام مظلوم قوموں کیلئے جو ابھی تک آزادی کی طلبگار ہیں کہ اللہ انکو ایسا عظیم لیڈر عطا فرما جیسا کہ پاکستانی قوم کو تحریک پاکستان کے وقت عطا کیا جس نے قوم کو تحفے میں آزاد وطن پاکستان دیا۔ پاکستان کے اس بہادر اور عظیم لیڈر کا نام قائد اعظم محمد علی جناح ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح 25 دسمبر 1876کو پیدا ہوئے، والد کا نام پونجا جناح تھا آپ کی پیدائش پر آپ کا نام محمد علی رکھا گیا اور آپکے والدین کی طرف سے تعلیم و تربیت کا خاص اہتمام کیا گیا جسکی تکمیل کیلئے آپکو چھ برس کی عمر میں مدرسے میں داخل کیا گیا اسکے بعد ابتدائی تعلیم کے لیے گوگل داس پرائمری اسکول داخل کیا گیا اور پھر بعد میں سندھ مدرسہ سے پندرہ سال کی عمر میں میٹرک کا امتحان اعلی’ نمبروں سے پاس کیا 1892میں وکالت کا امتحان پاس کرنے کے بعد اعلی’ تعلیم کے لیے قائد اعظم محمد علی جناح لندن چلے گئے 1896میں بیرسٹر بننے کے بعد آپ لندن سے کراچی واپس تشریف لائے اور 1902میں وکالت کے سلسلے میں آپ بمبئی تشریف لے گئے وہاں قائد اعظم نے سخت مشکلات کا سامنا کرنے کے باوجود بہت حوصلے اور بہادری کے ساتھ کام کیا قائداعظم نے دسمبر 1904میں بمبئی میں کانگریس کے بیسویں سالانہ اجلاس میں شرکت کر کے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا اس وقت ہندو مسلم اتحاد کے حامی تھے 1906میں آل انڈیا کانگریس میں شمیولیت اختیار کی ۔محمد علی جناح 60 رکنی امپیریل مشتاورتی کونسل کے ممبر بن گے قائد اعظم محمد علی جناح مسلمانوں کے حقوق کے حوالے سے بہت سرگرم تھے۔ 1913میں محمد علی جوہر، سید وزیر حسن اور دیگر مسلم قیادت نے آپ کو مسلم لیگ میں شمولیت پر آمادہ کیا مگر مسلم لیگ اس وقت نوابی تھی ۔اسلئے آپ کا رجحان کانگریس کی طرف رہا جس کے لیے آپ نے مسلم لیگ اور کانگریس کو ایک دوسرے کے قریب لانے کی کوشش کی جس کے نتیجہ میں میثاق لکھنئو ہوا محمد علی جناح ان دونوں جماعتوں میں اتحاد کے علمبردار کی حیثت رکھتے تھے پہلی جنگ عظیم ختم ہونے کے بعد برطانوی حکومت نے اپنے وعدوں سے منحرف ہو کر رولٹا ایکٹ جیسا قانون نافذ کر کے سیاسی اور سماجی سرگرمیوں پر پاپندی لگا دی ۔جس سے سارے برصغیر میں تحریک شروع ہوگی اور حکومت نے مارشل لاء نافذ کر دیا اس تحریک کی قیادت گاندھی نے کی قائد اعظم نے کانگریس میں اس کی مخالفت کی آخر یہ تحریک ناکام ہوگئی 1920میں قائداعظم کانگریس سے ہندؤں کی ذہنیت کو سمجھتے ہوئے الگ ہوگئے 1930میں لندن میں دوسری گول میز کانفرنس میں شریک ہوئے اس میں علامہ محمد اقبال بھی شریک تھے جنہوں نے 1930میں مسلم لیگ کے اجلاس آلہ آباد میں اپنا خطبہ صدرات میں ایک متحدہ اسلامی ریاست کے قیام کی نشاندہی کی اس کے بعد دونوں رہنماؤں کی ملاقاتیں ہوئی جس میں علامہ اقبال نے اپنے نقطہ نظر کی مزید وضاحت کی قائد اعظم برصغیر کی سیاست سے بیزار ہو کر واپس انگلستان چلے گئے 1933میں لیاقت علی خان جب لندن آئے تو انہوں نے قائداعظم سے ملاقات کی اور برصغیر آکر مسلمانوں کی قیادت کرنے کی درخواست کی اس پر آپ 1934میں برصغیر تشریف لائے یہاں آکر آپ نے مسلم لیگ کو با حثیت جماعت متحرک اور منظم کیا ۔قائداعظم محمد علی جناح کو 1935میں بمبئی کے مسلم لیگ کے اجلاس میں پارٹی کو منظم کرنے کے اختیار دیے گئے جس پر آ پ نے تمام برصغیر کا دورہ کیا ۔اس دورے کے دوران آپ نے مسلمانوں کو آنے والے خطرات اور اس سے نمٹنے کے لیے تیار کیا 27مئی 1937کو قائداعظم کے نام اپنے ایک خط میں علامہ اقبال نے اس بات کا اظہار کیا کہ اسلام کے لیے سوشل ڈیموکریسی کی کسی شکل میں ترویج جب اسے شریعت کی تائید ومدافعت حاصل ہو۔حقیقت میں کوئی انقلاب نہیں بلکہ اس کی حقیقی پاکیزگی کی طرف رجوع کرنا ہوگا ۔مسائل حاضرہ کا حل مسلمانوں کے لیے ہندوؤں سے کہیں زیادہ آسان ہے لیکن جیسا کہ پہلے عرض چکا ہوں کہ اسلامی ہندوستان میں ان مسائل کا حل آسانی سے رائج کرنے کے لیے ملک کی تقسیم کی ذریعے اسلامی ریاست کا قیام اشد ضروری ہے ۔برصغیر کی ملت اسلامیہ کا قافلہ جو اٹھارہویں صدی سے اپنی بقاء اور تہذیبی اثاثوں کے تحفظ کے لیے بھٹک رہا تھا اور تقریبا” ڈیڑھ صدی سے اپنی منزل کے تعین کے باوجود سفر کی حکمت عملی سے بے خبر تھا۔ پوری ملت اسلامیہ برصیغر اسلام کے ساتھ پوری وابستگی اور مکمل خود سپردگی کے باوجود قیادت کے فقدان کا شکار تھی کچھ مایوسی کے برسوں کے بعد روشنی کی ایک کرن پھوٹی اور 1908 کی مسلم لیگ جو بڑے لوگوں کی جماعت سمجھی جاتی تھی .قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں مسلمانان برصغیر کی آنکھوں کا تارا بن گئی اور اس طرح ملت کا دل افسردہ قافلہ جو کہ رہنماؤں کی جلد بازیوں سے دلبرداشتہ ہوچکا تھا دوبارہ کمر بستہ ہوا اور ایک تازہ جوش و ولولے کے ساتھ قائد اعظم کی رہنمائی میں راس کماری سے لے کر پشاور تک رواں دواں ہو گیا قائد اعظم محمد علی جناح کے انداز تقاریر کے لوگ ایسے گرویدہ ہوئے کہ انگریزی سے نا آشنا لوگ بھی بت بن کر انکو سنتے اور تالیاں بجاتے کیونکہ وہ سب کے لیڈر بن چکے تھے۔ مسلمان ملت برصغیر جس میں شرح خواندگی تین فیصد سے بھی کم تھی ۔مگر دنیاوی اعتبار سے وہی سادہ اور نا خواندہ مسلمانوں نے جو سامراجی قوتوں کے ستائے ہوئے تھے اور ہندؤں کی تنگ نظری، ذلت آمیز رویوں اور ناانصافیوں کا شکار تھے انہوں نے تاریخ کا وہ عظیم الشان سفر اپنے عظیم قائد کے ساتھ طے کیا کہ پوری دنیا کو حیران کر دیا جس نے اقوام عالم کی تاریخ میں بالکل ہی نئے اور انوکھے انداز میں انقلاب کا آغاز کیا۔قائد اعظم محمد علی جناح نے مختلف تقاریر کیں اور انکے اقتباسات ہیں جو آج تاریخ کا سرمایہ ہیں 23مارچ 1940کے اجلاس میں جب قرار داد منظور ہوئی ۔قائد اعظم نے فرمایا اسلام اور ہندو دھرم محض مذہب نہیں درحقیت دو مختلف معاشرتی نظام ہیں ۔ 20مارچ 1941کو قائد اعظم نے مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے ایک اجلاس میں بھی خطاب کیا۔ 15 نومبر1942ء کے خطاب میں بھی قائد اعظم نے فرمایا کہ مجھ سے اکثر پوچھا جاتا ہے کہ پاکستان کا طرز حکومت کیا ہو گا؟ پاکستان کے طرز حکومت کا تعین کرنے والا میں کون ہوتا ہوں مسلمانوں کا طرز حکومت آج سے تیرہ سو سال قبل قرآن مجید میں ہماری رہنمائی کے لیے موجود ہے اور قیامت تک موجود رہے گا ۔عظیم لیڈر قائداعظم محمد علی جناح کے یہ وہ تاریخی الفاظ تھے جنہیں اگر سمجھ لیا جائے تو یقین ہوجائے کہ جس قوم کو ایسا رہنما ملے وہ مایوس کیسے ہو سکتی تھی۔ 6 دسمبر1943ء کو کراچی میں آل انڈیا مسلم لیگ کے 31 ویں اجلاس سے خطاب کے دوران قائداعظم نے فرمایا وہ کون سا رشتہ ہے جس سے منسلک ہونے سے تمام مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں وہ کون سی چٹان ہے جس پر ان کی ملت کی عمارت استوار ہے وہ کون سا لنگر ہے جس نے امت کی کشتی محفوظ کر دی گی ہے وہ رشتہ ،وہ چٹان ،وہ لنگر، اللہ کی کتاب قرآن کریم ہے مجھے امید ہے کہ جیسے جیسے ہم آگے بڑھتے جائیں گے قرآن مجید کی برکت سے زیادہ سے زیادہ اتحاد پیدا ہوتا جائے گا ایک خدا، ایک کتاب ، ایک رسول ص ، ایک امت قائداعظم محمد علی جناح کا یہ خطاب کسی تبصرے یا وضاحت کا محتاج نہیں اس کا ہر لفظ پکار کر گواہی دے رہا ہے کہ یہ بات کہنے والا امت کے حقیقی تصور سے بھی آشنا ہے اور اللہ ، قرآن اور رسول ص کو مان لینے کے لازمی نتائج سے بھی باخبر ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم قائداعظم کا یوم پیدائش تو مناتے ہیں مگر کیا ہم اس عظیم لیڈر کی قربانیاں یاد کرتے ہوئے اسکی کوئی بات مانتے ہیں؟ اپنی نسل کو بھی اپنے قائد کے روشن کردار و سیرت سے متعارف کرواتے ہیں؟ آج بھی ہمارے رہنماء اور قوم قائداعظم محمد علی جناح کے خطبات سنیں اور انکے کردار اور سیرت کی خوبصورتی کو اپنائیں تو دنیا کی کوئی طاقت ہمیں کامیابی سے نہیں روک سکتی قائد نے پاکستان توڑنے کیلئے نہیں جوڑنے کیلئے بنایا تھا قائد کی سالگرہ کے دن 25 دسمبر کو عہد کیجئے کہ ہم سب پاکستانی قوم انکے خطبات کی پاسداری کرتے ہوئے اس وطن کو اتحاد و امن کا گہوارہ بنائیں گے۔پاکستان زندہ باد

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here