سماجی تبدیلی کے لیے تعلیم: گرین وچ یونیورسٹی کی جانب سے ٹرانس جینڈر افراد کو 100% اسکالرشپ دینے کا اعلان۔

0
709
Reema Ismail wife of Governor Sindh and VC of Greenwivh Unuversity, Seema Mughal addressing the TransGender Day. Anum Naz Durrani and Bindiya signing the MOU

سماجی تبدیلی کے لیے تعلیم: گرین وچ یونیورسٹی کی جانب سے ٹرانس جینڈر افراد کو 100% اسکالرشپ دینے کا اعلان۔
کراچی:(اسٹاف رپورٹر) ٹرانس ڈے آف ریمیمبرنس کے موقع پہ، گرین وچ یونیورسٹی نے ہفتے کے روز، صنفی تعاملاتی اتحاد کے ساتھ ایک مفاہمت کی یادداشت (ایم او یو) پر دستخط کیے، اس یادداشت کے مطابق، یونیورسٹی کی جانب سے مفت تعلیمی وظیفے کی فراہمی کے ذریعے ٹرانس جینڈر افراد کی تعلیم کو فروغ دیا جائے گا۔
اس اقدام سے گرین وچ یونیورسٹی پاکستانی جامعات خواجہ سراوں تک تعلیم عام کرنے کی علمبردار جامعہ بن گئی ہے جس نے خواجہ سراؤں کو انڈرگریجویٹ، گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ تعلیم مفت فراہم کی ہے۔ اس کارنامے کو نشان زد کرنے اور ٹرانس رائٹس کا جشن منانے کے لیے یونیورسٹی میں ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا۔
اس تقریب کا انعقاد تمام حکومتی اور بیوروکریٹک اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ ساتھ سول سوسائٹی اور کاروباری برادری سے خواجہ سراؤں کے لیے باوقار روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔ اس موقع پر پاکستان میں ٹرانس رائٹس کے تحفظ کے لیے مختلف اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے اب تک کی جانے والی کوششوں کی بھی سراہی گئیں۔
تقریب کا آغاز خطبہ استقبالیہ سے ہوا، جس کے بعد معروف ٹرانس رائٹس کارکن، ٹرانس جینڈر پرسنز (تحفظ حقوق ایکٹ 2018) کی پیشوا، محترمہ بندیہ رانا کی پروفائل پیش کی گئی۔
محترمہ بندیا رانا، سربراہ ، جنڈر انٹریکٹو الائنس نے خواجہ سراؤں کے تعلیم اور باوقار روزی روٹی کے حق کی حمایت کرنے کے لیے گرین وچ یونیورسٹی کے قدم کی تعریف کی۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ خواجہ سراؤں کو پاکستانی معاشرے میں آج تک ممنوع سمجھا جاتا ہے۔ محترمہ بندیا نے کہا کہ ملک کے سماجی، سیاسی اور معاشی تانے بانے سے ٹرانس لوگوں کا اخراج، انہیں جسمانی اور نفسیاتی زیادتیوں کا سامنا کرنے کے علاوہ بقا کے معاشی ذرائع سے محروم کر دیتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ تعلیمی مواقع کی کمی ٹرانس پرسنز کے خلاف صورتحال کو مزید خراب کرتی ہے۔ اگرچہ پاکستان خواجہ سراؤں کے حقوق کو فروغ دینے کے لیے اقدامات کر رہا ہے، اور اس سلسلے میں پیش رفت ہو چکی ہے، لیکن محترمہ بندیا نے نوٹ کیا کہ خواجہ سراؤں کی برادری کی ترقی کے لیے انہیں مساوی مواقع فراہم کرنے کے لیے ابھی بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹرانس جینڈر افراد کی تعلیم کو فروغ دینے کے لیے گرین وچ یونیورسٹی کا اقدام درست سمت میں ایک بہت بڑا قدم ہے۔
پاکستان کی پہلی ٹرانس جینڈر ڈاکٹر محترمہ سارہ گل نے بھی تقریب میں شرکت کی اور اپنے تعلیمی اور پیشہ ورانہ زندگی میں درپیش جدوجہد کے بارے میں بتایا۔ انہوں نے کہا کہ خواجہ سراؤں کی شناخت کی بنیاد پر امتیاز پاکستان کو معاشرے اور معیشت دونوں کے طور پر ترقی کرنے سے روک رہا ہے۔ انہوں نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں صنفی بنیادوں پر تعصبات سے نجات دلانے اور ہنر کے حصول کے مواقع پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے علی جیلانی، سربراہ سفارتی امور، گرین وچ یونیورسٹی نے کہا کہ کاروباری اداروں، تعلیمی اداروں میں خواجہ سراؤں کی شمولیت یقینی طور پر معاشرتی تصورات میں تبدیلی کا باعث بنے گی۔ پوری دنیا میں، ٹرانس رائٹس کی جدوجہد غالب سماجی تعمیرات سے آزادی حاصل کرنے میں شاندار رہی ہے، کام کی جگہوں پر ٹرانس پرسنز کا استقبال کیا جاتا ہے، انہیں تعلیمی مواقع فراہم کیے جا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان میں ایک متحرک ٹرانس رائٹس کمیونٹی کا ہونا اعزاز کی بات ہے، ہم ٹرانس رائٹس کے فروغ کے لیے اپنے پلیٹ فارم کو استعمال کرنے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔
جنڈر انٹریکٹو الائنس نے خواجہ سراوں کے حقوق پر ایک انٹرایکٹو تھیٹر پیش کیا گیا جب کہ گرین وچ میڈیا کے نمایاں طلباء نے ایک دستاویزی فلم ‘میں انسان ہوں تیار کی جس میں تعلیم اور روزگار کے ٹرانس حقوق کی وکالت کی۔ شاندار طریقے سے بنائی گئی اس دستاویزی فلم میں ٹرانس جینڈر افراد کے اخراج پر آواز اٹھائی گئی، جس سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ یہ اخراج ٹرانس لوگوں کو غیر انسانی، باوقار زندگی کے لائق نہیں بناتا۔
گرین وچ یونیورسٹی اور جی آئی اے کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے تقریب کی مہمان خصوصی گورنر سندھ کی اہلیہ محترمہ ریما اسماعیل نے کہا کہ ‘حکومت معاشرے کے سماجی تانے بانے کو تبدیل کرنے کے لیے سنجیدگی سے غور و فکر کر رہی ہے۔ اس میں ٹرانس جینڈر افراد کو شامل کرنا اور ٹرانس حقوق کا اعتراف شامل ہے۔ تبدیلی قریب ہے، تاہم تبدیلی جتنی بتدریج ہوگی، اتنی ہی پائیدار ہوگی۔ مجھے اس جوش و جذبے کو دیکھ کر خوشی ہوئی ہے جس کے ساتھ ہم بطور معاشرہ آگے بڑھ رہے ہیں۔
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے گرین وچ یونیورسٹی کی وائس چانسلر محترمہ سیما مغل نے کہا کہ ‘میں آج تعلیم کے ذریعے سماجی تبدیلی کے گرین وچ کے وژن کو عملی جامہ پہناتے ہوئے دیکھ رہی ہوں، کیونکہ ہم ٹرانس کمیونٹی کے لیے اپنے دروازے کھول رہے ہیں۔’ ‘میں سب کو یقین دلانا چاہتی ہوں کہ جامعہ گرین وچ تعلیم کے فروغ کے لئیے اپنا کردار ہمیشہ ادا کرتی رہے گی۔ پاکستان کی بطور معاشرہ اور معیشت ترقی میں اپنا حصہ ڈالنا بطور تعلیمی ادارہ ہمارا نصب العین ہے۔ گرین وچ خاندان ہمیشہ معاشرے کی ترقی، ہماری بنیاد، تعلیم کے لیے اپنی کوششوں کو یقینی بنائے گا۔ شام کا اختتام اسناد اور ایوارڈز کی تقسیم کے ساتھ ہوا جس کے بعد ایم او یو پر دستخط کی تقریب ہوئی۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here