اکیڈیمیاء اور انڈسٹریز کے مابین اشتراک کے بغیر معاشرتی مسائل کے حل کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔ڈاکٹر خالد عراقی

0
1194

اکیڈیمیاء اور انڈسٹریز کے مابین اشتراک کے بغیر معاشرتی مسائل کے حل کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔ڈاکٹر خالد عراقی
مرغی کے گوشت کی قیمتوں کا اصل دارومدار طلب اور رسد پر ہوتاہے جب طلب بڑھتی ہے اور رسد کم ہوتی ہے تو قیمتوں میں خود بخود اضافہ ہوتاہے۔ترجمان پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن
پاکستان میں فی کس 17 گرام گوشت استعمال کیا جاتاہے جبکہ دنیا بھر میں شرح 25 گرام فی کس کے حساب سے طے شدہ ہے۔ڈاکٹر شاہینہ ناز
مرغی کے گوشت کے معیار کو چانچنے اور برقراررکھنے کے لئے سرکاری سطح پر ریگولیٹری اتھارٹی کا قیام ناگزیر ہے۔ شکیل بیگ
کراچی:(اسٹاف رپورٹر) جامعہ کراچی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر خالد محمود عراقی نے کہا کہ معاشرتی مسائل کے حل کے لئے اکیڈیمیاء اورانڈسٹریز کا اشتراک ناگزیر ہے،جامعات اور انڈسٹریز کے اشتراک سے نہ صرف مسائل کی نشاندہی بلکہ اس کا حل بھی تلاش کیا جاسکتا ہے،اکیڈیمیاء اور انڈسٹریز کے مابین اشتراک کے بغیر معاشرتی مسائل کے حل کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔جب تک مسائل کی نشاندہی نہیں ہوگی اس کا حل تلاش نہیں کیا جاسکتا ہے اور مسائل کی نشاندہی اور حل کے لئے اکیڈیمیاء بہترین پلیٹ فارم ہیں۔ان خیالات کا اظہار انہوں نے شعبہ فوڈ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اوردی ورلڈ پولٹری سائنس ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام شعبہ فوڈ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی جامعہ کراچی کے یونائیٹڈ کنگ ہال میں منعقدہ سیمینار بعنوان: ”مرغی اور اس کے گوشت کا استعمال“ سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
ڈاکٹر خالد عراقی نے مزید کہا کہ شعبہ فوڈ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میں فوڈ ریسرچ پارک کے قیام کا مقصد انڈسٹریز کے ساتھ روابط کو فروغ دے کر معاشرتی مسائل کے حل کے لئے مشترکہ طور پر تحقیق کو فروغ دینا ہے۔انہوں نے شعبہ ہذا کی صنعتوں کے ساتھ مسلسل رابطوں اور اشتراک کو سراہتے ہوئے کہا کہ صنعتوں کے ساتھ اشتراک معاشرتی مسائل کے حل کا ذریعہ اور وقت کی اہم ضرورت ہے۔
پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن کے ترجمان عبدالمعروف نے مرغیوں کی قیمتوں میں اضافے کی وجوہات پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ کووڈ19 کی وجہ سے ہونے والے لاک ڈاؤن کے خاتمے کے بعد تقریبات اور بالخصوص شادیوں کے بے تحاشہ تقریبات کی وجہ سے مرغی کے گوشت کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہورہاہے پہلے شادیوں کی تقریبات صرف رات میں ہواکرتی تھیں لیکن اب صبح اور شام دونوں اوقات میں تقریبات ہونے کی وجہ سے مرغی کے گوشت کی مانگ میں مسلسل اضافہ اور مارکیٹ میں مانگ پوری نہ ہونے کی وجہ سے قیمتوں میں اضافہ ہورہاہے۔اس کے علاوہ رمضان میں مرغی کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ یہ بھی ہے کہ لوگ سبزی سے زیادہ گوشت کا استعمال کرتے ہیں۔قیمتوں کا اصل دارومدار طلب اور رسد پر ہوتاہے جب طلب بڑھتی ہے اور رسد کم ہوتی ہے تو قیمتوں میں خود بخود اضافہ ہوتاہے۔
کنزیومر پروٹیکشن رائٹس کونسل کے شکیل بیگ نے کہا کہ مرغی کے گوشت کے معیار کو چانچنے اور برقراررکھنے کے لئے سرکاری سطح پر ریگولیٹری اتھارٹی کا قیام ناگزیر ہے تاکہ مضرت صحت گوشت کے سدباب کے ساتھ ساتھ گوشت کی مناسب قیمت پر دستیابی اور مرغی کے گوشت کے حوالے سے عوام پائے جانے والے منفی تاثرات کے خاتمے کو یقینی بنایا جاسکے۔
دی ورلڈ پولٹری سائنس ایسوسی ایشن کے نائب صدر وقارعالم نے کہا کہ پاکستان میں پولٹری کے شعبہ میں تحقیق کے فقدان کی وجہ سے عوام قیاس آرائیوں اور تذبذب کا شکارہے ان قیاس آرائیوں کے خاتمے کے لئے تحقیق کو فروغ دیناناگزیر ہے اور اس سلسلے میں ہم نے آج جامعہ کراچی کے شعبہ فوڈ سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے ساتھ باضابطہ طور پر مفاہمتی یادداشت پر دستخط کئے ہیں تاکہ پولٹری کے شعبہ میں تحقیق کو فروغ دے کر جو منفی تاثر دیا جاتاہے اس کو زائل کیا جاسکے اور اس کی افادیت یا نقصان کے حوالے سے عوام کو آگاہ کیا جاسکے۔
دی ورلڈ پولٹری سائنس ایسوسی ایشن کے جنرل سیکرٹری منور نے مرغی کے گوشت کے حوالے سے لوگوں میں پائے جانے والے تاثرات جس میں کہا جاتا ہے کہ مرغیوں کو ویکسین لگائی جاتی ہے اور اس کے گوشت کے استعمال سے بالوں کا اُڑجانا،خواتین کودرپیش چند مخصوص بیماریوں اور ہارمونز کا توازن بگڑنا وغیریہ سب خلاف حقیقت اور مبنی برقیاس ہے۔
چیئر پرسن شعبہ فوڈسائنس اینڈ ٹیکنالوجی جامعہ کراچی پروفیسر ڈاکٹر شاہینہ ناز نے کہا کہ ایک سروے کے مطابق پاکستان میں فی کس 17 گرام گوشت استعمال کیا جاتاہے جبکہ دنیا بھر میں یہ شرح 25 گرام فی کس کے حساب سے طے شدہ ہے۔ہمارے یہاں شہری آبادی کا ایک بڑاحصہ دیگر گوشت کے مقابلے میں مرغی کا گوشت زیادہ استعمال کرتے ہیں،ضرورت اس امر کی ہے کہ مرغی کے گوشت کے ساتھ ساتھ دیگر گوشت جس میں مچھلی،بکرے اور گائے وغیر ہ کا گوشت شامل ہے کے استعمال پر بھی توجہ دی جائے جو پروٹین کے حصول کے لئے ناگزیر ہے۔سیمینار میں پاکستان پولٹری ایسوسی ایشن،مرغی کی غذا اور ویکسین بنانے والی کمپنیوں کے نمائندوں کے ساتھ ساتھ مختلف صنعتوں کے نمائندے، غذائی ماہرین اور ڈاکٹر ز نے بھی شرکت کی۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here