سندھ حکومت تعلیم کے شعبہء میں انقلابی اقدامات کررہی ہے،وزیر تعلیم و محنت سندھ سعید غنی

0
992

سندھ حکومت تعلیم کے شعبہء میں انقلابی اقدامات کررہی ہے، وزیر تعلیم و محنت سندھ سعید غنی
کراچی:(اسٹاف رپورٹر) وزیر تعلیم و محنت سندھ سعید غنی نے کہا کہ سندھ حکومت تعلیم کے شعبہء میں انقلابی اقدامات کررہی ہے اور ہماری کوشش ہے کہ صوبے کے ایک ایک بچے کو ہم معیاری تعلیم کی فراہمی کو یقینی بنا سکیں۔ گذشتہ 7 سے 8 برسوں کے دوران جو اساتذہ بھرتی کئے گئے ہیں وہ میرٹ پر ہوئے ہیں اور وہ ایمانداری سے اپنا کام بھی کررہے ہیں۔ اس بار اساتذہ کی بھرتیوں کی جو پالیسی مرتب کی گئی ہے، اس میں مجھ سمیت کسی کی بھی مداخلت نہیں ہوسکے گی اور تمام امیدوار اپنی قابلیت کے اعتبار سے ٹیسٹ اور انٹرویو دے کر ہی نوکری حاصل کرسکیں گے۔ ہم نے تبادلے اور تقرریوں کی پالیسی کو بھی مکمل شفاف بنادیا ہے اور اب جہاں ضرورت ہوگی وہاں اساتذہ ای پورٹل کے تحت آن لائن ہی اپنے تبادلے کی درخواست دے سکیں گے۔ نجی اسکولوں کی ایسوسی ایشنز سے استدعا ہے کہ جو اسکولز اب تک رجسٹرڈ نہیں ہیں ان کو رجسٹرڈ کرایا جائے تاکہ ہمیں اپنے صوبے میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کو مکمل ڈیٹا حاصل ہوسکے۔ ہم اساتذہ کے ساتھ ساتھ بچوں کی بھی حاضری کو بائیو میٹرک کرنے کی جانب جارہے ہیں اور اس حوالے سے جدید ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے کام کا آغاز کردیا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعہ کے روز آل پاکستان پرائیویٹ اسکول مینجمنٹ (APSMA)کی 30 ویں سالگرہ کے حوالے سے منعقدہ تقریب سے بحثیت مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے کیا۔ تقرین سے اپسما کے چیئرمین، صدر سمیت دیگر عہدیداران نے بھی خطاب کیا جبکہ تقریب میں پاکستان بھر سے اپسما کے عہدیداران کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے وزیر تعلیم سندھ سعید غنی نے کہا کہ کوئی بھی حکومت کسی بھی شعبہء میں تن تنہا کچھ نہیں کرسکتی اور بالخصوص تعلیم کے شعبہء میں جب تک اساتذہ، بچے اور والدین سب اپنا اپنا کردار جب تک ادا نہیں کریں گے ہم اس شعبہء میں انقلابی اقدامات نہیں لاسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ مجھے فروری 2020 کے پہلے ہفتہ میں تعلیم کا قلمدان ملا لیکن بدقسمتی سے فروری کے آخری ہفتہ میں کوووڈ کے باعث تعلیمی ادارے بند کرنا پڑیں اور اس کے بعد سے آج تک کوووڈ کے باعث مکمل طور پر تعلیمی سرگرمیاں بحال نہیں ہوسکیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سرکاری تعلیمی اداروں میں اساتذہ اور غیر تدریسی عملہ کا فقدان ہے اور اس کے پس پشت عوامل میں ان کی بھرتیوں پر پابندی اور 2018 کے بعد سے اساتذہ کے تبادلے اور تقرریوں پر اس وقت کے وزیر تعلیم اور بعد ازاں 2019 میں کابینہ کی جانب سے پابندی بھی ایک سبب بنا اور اس پابندی کی وجوہات بھی یہ رہی کہ اساتذہ اپنی من مانی جگہوں پر اپنی تقرری چاہنے لگے اور جہاں ضرورت تھی وہاں اساتذہ نہیں جارہے تھے۔ سعید غنی نے کہا کہ اس بار ہم نے اساتذہ کی بھرتیوں کے لئے جو پالیسی مرتب کی ہے، اس میں مکمل میرٹ اور شفافیت کو فوقیت دی گئی ہے اور کابینہ سے منظوری کے بعد جو پالیسی بنائی گئی ہے، اس میں کوئی بھی کسی کی میرٹ کا قتل نہیں کرسکتا اور جو امیدوار میرٹ پر آئی بی اے سے ٹیسٹ پاس کرے گا اس کو ہی بھرتی کیا جائے گا اور اس کے لئے یوسی کی سطح پر اسامیوں کے حوالے سے ٹیسٹ کا انعقاد ہوگا اور بھرتیاں بھی اسی لحاظ سے کی جائیں گی۔ سعید غنی نے کہا کہ ہم نے اساتذہ کی من مانیوں سے ان کے تبادلے اور تقرریوں کے لئے بھی ایک واضح پالیسی مرتب کردی ہے کہ جس کے بعد اسکولز کو تین کیٹگریز میں تقسیم کردیا گیا ہے، جس میں ریڈ، یلو اور گرین شامل ہیں، انہوں نے کہا کہ اب اساتذہ کو اپنے تبادلے اور تقرریوں کے لئے کسی کو درخواست یا سفارش کی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ یہ سب بھی میرٹ پر ہوں گے اور اس کے لئے ای پورٹل بنا دیا گیا ہے، جہاں اساتذہ خود ہی درخواست آن لائن دے گا اور اپنے 3 آپشن دے گا اور اس کو آن لائن ہی اس جواب اور تقرر نامہ مل جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ریڈ کیٹگری میں کسی بھی استادکا تبادلہ کرکے نہیں لایا جاسکے گا البتہ ریڈ کیٹگری کا استاد اپنا تبادلہ دیگر کیٹگری میں کروا سکے گا اس کے لئے مذکورہ اسکول میں استاد کی جگہ کا ہونا لازمی ہوگا اسی طرح گرین کیٹگری میں استاد کا تبادلہ باآسانی ہوسکے گا۔ سعید غنی نے کہا کہ ہم نے اساتذہ کی تربیت کے لئے 29 میں سے5 ٹیچر ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ کو پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کے تحت چلانے کی منصوبہ بندی مکمل کرلی ہے، جہاں اساتذہ کی تربیت ہوگی اور ان تربیتی انسٹی ٹیوٹ میں داخلے مکمل طور پر میرٹ میں دئیے جائیں گے اور اس میں بھی کسی کی کوئی مداخلت نہیں ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ہم ان انسٹی ٹیوٹ سے کامیاب اساتذہ کی کامیابی کے دوسرے روز ہی انہیں سرکاری نوکری یقینی دیں گے جبکہ ان کے داخلے کے فوری بعد ان کے 4 سالہ تعلیم کے تمام اخراجات انہیں قرض کی صورت میں سندھ حکومت ادا کرے گی اور ان کو کوئی اخراجات اس دوران ادا نہیں کرنے ہوں گے اور اس کے بعد اس کی سرکاری نوکری پر یہ قرض ان کی تنخواہ سے ماہانہ آسان اقساط میں کاٹ لئے جائیں گے اور اس قرض پر کوئی سود بھی نہیں لاگو ہوگا۔ سعید غنی نے مزید کہا کہ ماضی میں 49 ہزار سرکاری اسکولز بنادئیے گئے تھے اور جہاں ایک یا دو اسکولز کی ضرورت تھی وہاں 50 اور 60 اسکولز بنادئیے گئے جبکہ زیادہ تر علاقوں میں پرائمری کے بعد ایلیمنٹری اور سیکنڈری اسکولز کے نہ ہونے سے زیادہ تر بچے پرائمری کے بعد اپنی سیکنڈری کی تعلیم اسکولز کی عدم دستیابی کے باعث جاری نہیں رکھ سکتے اس کے لئے ہم نے تمام سرکاری اسکولز کا کلاسٹر بنادئیے ہیں اور 6 ہزار کلاسٹر ہر 2 کلومیٹر میں آنے والے اسکولز کا بنا دیا گیا ہے اور اب ہر دو کلومیٹر کے اندر لازمی ایک ایلیمنٹری اور سیکنڈری اسکول ہوگا تاکہ بچے پرائمری کے بعد اپنی تعلیم کو مزید آسانی سے آگے جاری رکھ سکیں۔ سعید غنی نے کہا کہ ہم نے صوبے کے تمام تعلیمی اداروں کا سینسس مکمل کرلیا ہے اور اس کو جی پی ایس کے تحت گوگل پر بھی ڈال دیا گیا ہے۔ اس سے اسکولوں کی حالت زار، ان میں اساتذہ، طلبہ کی تعداد سمیت تمام مکمل کوائف موجود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں نجی اسکولز کی تمام ایسوسی ایشنز سے بھی درخواست کرتا ہوں کہ وہ جو نجی اسکولز رجسٹرڈ نہیں ہیں ان کو بھی رجسٹرڈ کروائیں تاکہ ہم صوبے میں تعلیمی اداروں میں موجود بچوں کو مکمل ڈیٹا حاصل کرسکیں اور ہمیں اپنے صوبے میں خواندگی کی حقیقی شرح کا بھی معلوم ہو اور ہم اس کی مناسبت سے مزید تعلیم کے شعبہء میں اقدامات کو یقینی بنا سکیں۔ سعید غنی نے کہا کہ اس وقت ہم صوبے کے مختلف 47 کالجز اور جامعات میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کو اینڈومنٹ فنڈز فراہم کرتے ہیں لیکن ابھی تک اسکولوں میں یہ فنڈز نہیں ہے، ہم چاہتے ہیں یہ فنڈ اسکولوں کے طلبہ کو بھی فراہم کیا جائے اور اس حوالے سے بھی کام کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اسکولوں میں اساتذہ کی حاضری کے لئے بائیو میٹرک سسٹم لگایا گیا ہے اور اب ہم اس کو ان اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے والوں بچوں کے لئے لازمی قرار دینے کے حوالے سے کام کررہے ہیں اور جلد ہی تمام اساتذہ اور بچوں کی بائیو میٹرک حاضری کو یقینی بنایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے آن لائن کلاسز کے نظام کو بھی متعارف کرایا ہے اور اس کو مزید وسعت دیں گے تاکہ جو مشکلات ہمیں کوووڈ کے بعد پیش آئی ہیں آئندہ مستقبل میں خدانخواستہ کوئی ایسی صورتحال کسی بھی وجہ سے آئے تو ہم آن لائن کے ذریعے تعلیم کے نظام کو جاری رکھ سکیں۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here