کردار سازی و شخصیت سازی سے ایک بہترین معاشرہ تشکیل دیا جائے ۔ ۔ وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ولی الدین، سرسید یونیورسٹی

0
1338
سرسید یونیورسٹی کے رجسٹرار سید سرفراز علی اور شعور فاءونڈیشن کے راجہ شعیب مفاہمتی یادداشت پر دستخط کررہے ہیں

قابلیت اور اہلیت کو پسِ پشت ڈالنے کی روایت نے بھی انتہاپسندی میں اضافہ کیا ہے ۔ راجہ شعیب، شعور فاءونڈیشن
سرسید یونیورسٹی میں شعور فاءونڈیشن کے اشتراک سے دو روزہ گروپ ڈسکشن کا انعقاد
کراچی:(اسٹاف رپورٹر) سرسید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی نے شعور فاءونڈیشن کے اشتراک سے جامعات میں تحمل اور امن پسندی کے رجحانات کو فروغ دینے اور ان کو مستحکم کرنے کے موضوع پر دو روزہ گروپ ڈسکشن کا انعقادکیا گیاجس میں جامعات کے اساتذہ نے اپنا موقف پیش کیا ۔ شرکاء میں مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والی ممتا ز شخصیات بھی شامل تھیں ۔
سرسید یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ولی الدین نے کہا کہ جامعات کا کام صر ف پڑھانا ہی نہیں ہے بلکہ ایک اچھے معاشرے کی تعمیر بھی ہے ۔ سرسید احمد کے جس نظریہ کی بنیاد پر علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کی بنیاد رکھی گئی تھی اس کا مقصد ہی یہ تھا کہ کردار سازی و شخصیت سازی سے ایک بہترین معاشرہ تشکیل دیا جائے ۔ ان کی یہ نظریاتی سوچ معاشرے میں ایک انقلابی تبدیلی لانے کا سبب بنی ۔ علیگڑھ یونیورسٹی کے جوانوں نے پورے برصغیر میں پھیل کر مسلمانوں کے لیے ایک خود مختار اسلامی ریاست کے لیے راہ ہموار کی اور قیام پاکستان کا محرک بنے ۔ ہم اسی سوچ و فکر کے داعی ہیں ۔ سرسید یونیورسٹی بہترین اور جدید تعلیم اوراچھی تربیت کے ذریعے ایک فعال لیڈر شپ پیدا کرنے پر یقین رکھتی ہے ۔ وقت کے ساتھ قدریں کافی بدل چکی ہیں ۔ معاشرے میں انتہاپسندی اور شدت پسندی کے رجحانات سرایت کر گئے ہیں ۔ ہم نے دولت اور طاقت کو اپنا مرکز و محور بنا لیا ہے ۔ جائز و ناجائز کی ہمارے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رہ گئی ہے ۔ تاہم جامعات کو عالمی تناظر میں طلباء کی شخصیت سازی اور ان کی اصلاح کے لیے ایک جامع و مربوط پروگرام تشکیل دینا ہوگا ۔ اگر ان کی اصلاح پر توجہ نہ دی گئی اور ن کی تربیت سے غفلت برتی گئی تو اس کے نتاءج نقصان دہ ثابت ہوسکتے ہیں ۔
شعور فاءونڈیشن کے ڈائریکٹر پروگرام راجہ شعیب نے کہا کہ پہلے اساتذہ خود تعلیم کے ساتھ ساتھ بچوں کی تربیت اور اصلاح کرتے تھے ۔ اب ان کے مسائل کو سننے، سمجھنے اور مشورہ دینے کے لیے جامعات میں الگ سے کونسلر رکھے جاتے ہیں ۔ تاہم بچے کی تربیت اس انداز میں ہونی چاہئے کہ وہ معاشرے کو کچھ دے سکے ۔ انٹرنیٹ اور اس سے منسلک دیگر سہولیات اور معلومات کی مسلسل فراہمی نے انسانوں کے باہمی تعلقات کو شدید نقصان پہنچایا ہے اور اسے تنہائی کا عادی بنا دیا ہے جو آگے چل کر انتہاپسندانہ جذبات اور عدم برداشت کو پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے ۔ ۔ عدم برداشت انسان کی خوبیوں کو زنگ لگا دیتی ہے ۔ انتہاپسندی عدم برداشت کا منطقی نتیجہ ہے ۔ قابلیت اور اہلیت کو پسِ پشت ڈالنے کی روایت نے بھی انتہاپسندی میں اضافہ کیا ہے ۔ ۔ سماجی ناہمواریاں اور انصاف کی عدم فراہمی نے بھی معاشرے میں بگاڑ پیدا کیا ہے ۔ اس بات پر بھی سوچنے کی ضرورت ہے کہ پہلے سے موجود قوانین و ضوابط کو کیسے موثر اور فعال بنایا جاسکتا ہے ۔
سرسیدیونیورسٹی کے رجسٹرار سید سرفراز علی نے کہا کہ معاشرے کی بہتری و ترقی کے لیے بنیادی شرط نظم و ضبط کی پابندی ہے جسے ہر سطح پر یقینی بنانا ضروری ہے ۔ وہی قو میں آگے بڑھتی ہیں اور ترقی کرتی ہیں جن میں نظم و ضبط ہوتا ہے ۔ ہم اخلاقیات کا درس غیر مسلم کو دیتے ہیں جبکہ اس کی ہم کو سب سے زیادہ ضرورت ہے ۔ رویوں کی درستگی معاشرے میں مثبت رجحانات کو فروغ دینے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے ۔
سرسید یونیورسٹی کے ڈین بیسک اینڈ اپلائیڈ سائنسز ڈاکٹر عقیل الرحمٰن نے کہا کہ طلباء پر پڑھائی اور مسابقت کے حد سے زیادہ دباءو نے بھی عدم برداشت اور شدت پسندی کے رجحانا ت میں اضافہ کیا ہے ۔ ہمارا تعلیمی نظام بچوں کو علم کے بجائے اذیت دینے کا باعث بن رہا ہے ۔ قانون کی پابندی انصاف سے متصل ہے ۔
سرسیدیونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ ڈین انجینئرنگ ڈاکٹر محمد عامر نے کہا کہ ہم باتیں تو بہت کرتے ہیں مگر عمل ندارد ۔ ہمارے سینوں سے ایمان نکل گیا ہے ۔ پنجاب میں ایک بہت اچھی مہم چلی تھی جس کا نعرہ تھا’’ مار نہیں پیار‘‘ ۔
دریں اثنا موقع پر موجود دیگر شرکاء کی رائے یہ تھی کہ بچوں کے لیے ایسے اہداف طے کر لیے جاتے ہیں جن کا حصول تقریباََ ناممکن ہوتا ہے ۔ یہ چیز معاشرے میں انتہاپسند رجحانات پیداکرنے اور ان میں اضافہ کا سبب بنتی ہے ۔ طاقت اور اختیار میں بڑا فرق ہوتاہے ۔ ہم تنقید برداشت کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں ۔ بچوں میں سیکھنے کے عمل کی رفتار مختلف ہوتی ہے کیونکہ ان کا تعلق مختلف گھرانوں سے ہوتا ہے جن کا طرز زندگی مختلف ہوتا ہے ۔ امتیازی سلوک، معاشی ناہمواریاں ، مسابقت یا موازنہ شدت پسندی کا موجب بن رہا ہے ۔ معاشرے میں بلاوجہ کا ایک خوف پیدا کردیا گیا ہے ۔ استاد وہ ہے جو خاموش بھی ہو تو لگتا ہے کچھ سکھا رہا ہے ۔ ہ میں ڈگری یافتہ نہیں تعلیم یافتہنوجوان چاہءں ۔ بہتر تو یہ ہے کہ غلط کام کو روکا جائے اگر روکنا بس میں نہیں ہے تو کم از کم اسے ایک اچھا روپ دے دیا جائے ۔سرسید یونیورسٹی اور شعور فاءونڈیشن کے مابین ایک مفاہمتی یادداشت پر دستخط بھی کئے گئے جس کے تحت دونوں ادارے دو طرفہ تعلقات کو فروغ دیں گے اور تحقیقی سرگرمیوں کو اجاگر کرنے کے لیے مشترکہ سیمینارز اور ورک شاپس کا انعقاد کریں گے ۔
اختتام تقریب پر شعور فاءونڈیشن کے راجہ شعیب نے سرسید یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ولی الدین کو سونیئر پیش کیا ۔

۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here