حجاب عورت کا تحفظ

0
2516

رابعہ ملک محمد امتیاز
ریسرچ اسکالرومعاون استاد:جامعہ کراچی۔
معاشرتی پاگیزگی کی نشوونما اور گھریلو زندگی میں ماحول کی پاکیزگی کا باعث شرم و
حیا ہے۔یہی عنصر معاشروں کی ترقی اور تباہی کا با عث بنتا ہے ۔اگر یہ عنصر منفی ہے تو اس
سے معاشرہ کلی طور پر تباہ و برباد ہو جائے گا اور اگر مثبت ہے تو اس کے نتا ئج خو شحالی کا
سبب بنے گے۔ اللہ تعالی قرآن مجید میں سورۃ النور آیت نمبر 24 میں ارشاد فرماتا ہے ۔
اِنَّ الَّـذِيْنَ يُحِبُّوْنَ اَنْ تَشِيْعَ الْفَاحِشَةُ فِى الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا لَـهُـمْ عَذَابٌ اَلِيْـمٌ فِى الـدُّنْيَا وَالْاٰخِرَةِ
ترجمہ :بے شک جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمانداروں میں بدکاری کا چرچا ہو ان کے لیے دنیا اور
آخرت میں دردناک عذاب ہے۔
یہاں اللہ رب العز ت نے واضح فرما دیا کہ جو لوگ آرزو مند ہیں ، خواہش مند ہیں اور اپنے
دل میں یہ تمنا رکھتے ہیں کہ مسلمانوں میں بے حیائی پیدا ہو توان کے لئے درد ناک قسم کا عذاب ہے
سخت وعید ہے کہ وہ دنیا وآخرت میں تباہ برباد ہو جائیں گے۔
اسی علامہ اقبال فرماتے ہیں:
غیرت ہے بڑ ی چیز جہاں تگ و دو میں
پہناتی ہے درویش کو تاج سردارا
دین اسلام جہاں عورت کو بے شمار حقوق فراہم کرتا ہے جس میں تعلیم و تربیت ،نکاح کا حق ،مہر
کا حق، زندگی گزار نےکے اصول و ضوابط سے آگاہی ،عفت و عصمت سے آشنائی وغیرہ شامل
ہے۔ان میں سے ایک حق حجاب بھی ہے جو عورت کےتحفظ کا ذریعے ہے۔جس میں رہتے ہوئے
عورت اپنے کاموں کو احسن طریقے سے سرانجام دے سکتی ہےاوراپنے مقام سے آشنا ہوسکتی ہے
۔عورت کے مقام کو بلند کرنے کے لئے،مسلم اور غیر مسلم عورت میں فرق کرنےکے لئےاسے
حجاب کا پابند اللہ نے کیاہےاور جہاں عورت کو یہ حکم ہو اہے وہاں مرد کو بھی پابند کیا ہے کہ وہ
بھی عورت کی عزت کرے اس کو بدی کی نگاہ سے نہ دیکھیں۔
اللہ تعالی قرآن مجید میں فرماتاہے:
دین اسلام میں ایسی بہت سی خواتین کی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں جن کے ذریعے سے اسلام
کی روشنی دور دراز علاقوں میں پہنچی۔اس کی ایک مثال سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاہیں جن
کے لئے آپ ﷺ نے فرمایا:
’’اپنے دین کا نصف علم اس حمیراء یعنی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاسے سیکھو۔‘‘
عورت عہد نبوی میں کہیں علوم و فنو ن کا سبب بنی ،کہیں جنگوں میں اپنی بہادری کے جوہر
دیکھاتی ہوئی نظر آئی،جس کی مثال سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا ہیں اور کہیں معرفت الہیٰ کے ذریعے
اللہ کی مقربین بندی بنی جس میں سب سے اہم مثال سیدہ فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیھا جو جنت کی
عورتوں کی سرداروں ہیں ۔جن کی اعلی تربیت سے معاشرے کو حسن و حسین جیسے عظیم
صاحبزادے ملے۔
ان تمام باتوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ نے جیسے مرد کو بے شمار انعام و اکرام سے نوازا
ہے وہی عورت میں بھی بے پنا ہ صلاحیتیں رکھ دی ہیں اور جو مرد کے لئے یہ حکم آیا :
کہ مرد عورت پر حاکم ہے اللہ نے انھیں ایک درجہ فضیلت دی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ مرد پر
ذمہ داری عائد کی ہے کہ وہ اسے تحفظ دے اس کے مہر اور نان نفقے کی ادائیگی کرے اس لئے
حاکم نہیں بنایا کہ وہ اسے اس کی بنیادی ضرورتوں سے محروم رکھیں اسے اپنی جنسی ہوس کا
نشانہ بناتے ہوئے اس کو تشدد کا نشانہ بنائے۔
اللہ نے دونوں کے حقوق مساوی رکھیں ہیں بس فرق صرف اتنا ہے کہ عورت کو گھر کی ملکہ اور
مرد کو بادشاہ بنایا ہےاور بادشاہ پر فرض عائد ہو تا ہے کہ وہ گھر کے سربراہ کی حیثیت سے اپنے
اہل و عیال کا خیال رکھیں۔
آج جو مغرب مسلم عورت کے حجاب کو تنقید کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور اسے تنگ نظری قرار دیتا
ہے اور ایسے بے ہودہ جملوں کا استعمال ہماری شناخت کو مٹانے کا باعث ہے اور ایسے جملے
عورت کی توہین اور تحقیر کا باعث ہیں اس سے عورت کے حقوق کا تحفظ نہیں ہو رہا بلکہ اس کے
حقوق کی پامالی ہے جس کا اثر مسلم خواتین لے رہی ہیں اس کا بہت بڑا نقصان ہماری مسلم خواتین
پر پڑہ سکتا ہے۔اگر آپ معاشرے میں عورت کو اس کے حقوق دلانا ہی چاہتے ہیں تو اس کے لئے
الگ سرکاری سطح پر کالجز اور یونیورسٹز کا قیام عمل میں لایا جائے ،نوکریوں کے لئے الگ
ادارے قائم کیے جائیں جو اس کے تحفظ کاضامن ہوں، ٹراسپوٹ کے لئے الگ سہولیات فراہم کی
جائیں جو اس کے سفر کو آرام دہ بنائیں ،اعلی تعلیم کے مواقع پیدا کئے جائیں جو اس کی علمی
سرگرمیوں کو بہتر بنائیں۔یہ بنیادی حقوق ہیں جس کے لئے عملی اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔
میری حکومت پاکستان سے اپیل ہے کہ ان بنیادی باتوں پر عمل پیرا ہوں ان اقدامات پر کا م کیا جائے
۔عورت کے نام پر جو تحقیر آمیز کلمات ابھر کر سامنے آرہے ہیں اس پر سختی سے پابندی لگائی جا
ئے اور ایسے سیمنا ر کا انعقاد کیا جائے جومسلم عورت کو اس کے مقام سے آشنا کرے ماضی کی
عظیم خواتین کے کارناموں سے آگاہی فراہم کرے جن کی بہتر تربیت کے نتیجے میں معاشرے کو
امام غزالی ملے،صلاح الدین ایوبی جیسے عظیم جانباز ملے۔ایسی عظیم ماوں کا تذکرہ کر کے
نوجوانوں میں علم کی محبت پیدا کی جائے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here