علم کی طلب کے لئے جستجو شرط ہے

0
4483

تحریر: رابعہ ملک محمد امتیاز
علم کی طلب کے لئے جستجو شرط ہے
معاون استاد ،شعبے علوم اسلامی، جامعہ کراچی۔
علم کا معنی ہے:جاننا ،حقیقت کو جان لینے کا نام علم ہے۔علم ایک ایسی روشنی ہیں جو پوشیدہ چیزوں کے بارے میں آگاہی فراہم کرتی ہے ۔یہ ایک قیمتی اور لازوال سرمایہ ہے جس کے ذریعے قومیں عروج اور سربلندی حاصل کرتی ہیں ۔مذہب اسلام میں اسےحاصل کرنے کی طلب اس قدر ہے کہ دین اسلام کی ابتدا ء ہی علم سے ہوتی ہے ۔ جیسا کہ قرآن مجید کی پہلی وحی کا آغاز ہی اقراء یعنی پڑھ سے ہوتا ہے ۔یہاںوحی کی ابتداءعلم سے ہو رہی ہے۔ اس سےمعلوم ہوا کہ دین اسلام کا دوسرانام “علم” ہےلیکن اس کو حاصل کرنے کی جستجو،جذبہ اور لگن طالب علم میں ہوتووہ علم مفید ہے اور اگر حصول علم کا جذبہ آپ میں موجود نہیں ہے تو وہ علم غیر مفید ہے۔رسول اللہ ﷺکی حدیث بھی ہمیں اسی حصول علم کی رغبت دلاتی ہےکہ آپﷺ کا قول ہے:طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم ،علم کی طلب ہر مسلمان پر فرض ہے۔ طلب جتنی زیادہ ہوگی وہ علم “علم نافع” کہلائے گا۔اس حدیث میں طلب علم مرد اور عورت دونوں پرفرض ہے۔طلب علم کے لئے جن اشیا ء کی ضرورت ہے اس کا اظہا ر ما ہرین کے چند اقوال سے ہو تا ہے جو کہ مندرجہ ذیل ہے:
۔حضرت علیؓ فرماتے ہیں : علم عمل کو آواز دیتا ہے، اگر علم عمل پاتا ہے تو رکتا ہے ورنہ وہ بھی رخصت ہو جاتا ہے۔
۔امام یوسفؒ فرماتے ہیں :علم ایک ایسی چیز ہے کہ جب تم اپنی ساری زندگی اس کے لئے وقف کر دو گے تب جا کر علم تم کو اپنا بعض حصہ دے گا، جب اس کا بعض تم کو مل جائے تو اس پر تکیہ کر کے مت بیٹھ جاؤ، بلکہ مزید حاصل کرنے کی کوشش کرو۔
یہاں علم کے حصول کی قید نہیں لگائی ۔ اس کے لئے طالب علم کی ساری زندگی بھی وقف ہو سکتی ہے اور اگر پوری زندگی اس کے حصول کے لئے لگ جا ئے تو پھر اس پر طالب علم کو چاہیے کہ وہ غرور تکبر نہ کریں بلکہ مزید علم کی طلب خود میں رونما رکھیں۔
ان اقوال سے یہ بات واضح ہو تی ہے کہ علم کا ایک پہلو عمل ہے کیونکہ اسی کے ذریعے علم ترقی پا تا ہے ۔حصول علم صبر و تحمل اور ایثار و قربانی چاہتا ہے، لہٰذا علم حاصل کرنے والوں میں محنت و مشقت برداشت کرنے کا جذبہ اور اس راہ میں آنے والے مصائب و مشکلات پر صبر کرنے کا حوصلہ ہونا چاہئےکیونکہ علم اللہ تعالیٰ کا نور ہے، جو اس کے فرمانبردار بندوں ہی کو ملتا ہے، لہٰذا اس نور سے اپنا سینہ مزین کرنے والوں کو چاہئے کہ وہ علم کی قدر کرتے ہوئے برائیوں سے اجتناب کریں۔
دور حاضر میں طلب علموں میں یہ طلب پیدا کرنے لئے چند اقدامات کی ضرورت ہے۔
۔آج کا تعلیمی نظام بہت سی تبدیلیوں کا تقاضہ کرتا ہے۔ اس میں جدت لانے کی ضرورت ہے۔ ہمارا تعلیمی نصاب دور حاضر کے تقاضوں میں ڈھلے گا تو اس کے نتائج مثبت ثابت ہونگے۔اس کی کئی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں ۔ جیسا کہ انگریزی نصاب جو کہ مکمل انگریزوں کے نصاب کے عین مطابق ہے اس میں ان کے کردار کو پیش کیا جا تا ہے جس سےہمارے طالب علموں میں ان کے لئے دلچسپی پیدا ہوتی ہے ،اگر ہم اس نصاب کو خود تیار کریں اس میں مسسلم رہنماؤں کے کردار کو پیش کریں تو اس کے دو فوائد ہونگے ایک تو طالب علم انگریزی زبان سیکھ جا ئیں گےاور دوسرا اپنے مسلم رہنماؤں کے کردار وںکو جانیں گے۔اس طرح اس کے مفید اثرات مرتب ہونگے۔
۔ اسی طرح اردو کے مضامین میں صوفیانہ ، فلسفیانہ اور انقلابی شاعری و نثر نگاری ہو تا کہ طالب علم اپنے مسائل کا حل با آسانی نکا ل سکے۔
۔ نصاب میں مو جودہ حالات کے مطابق تبدیلیا ں ہو وقتا فوقتا نظر ثانی کا عمل جاری رہے ۔
۔ تعلیم زیادہ مہنگی نہ ہو۔ ہر طالب علم کے لئے علم کے دروازے کھولے ہوں ۔ اس حوالے سے ارسطو کی مثال ہمارے سامنے موجود ہےکہ افلاطون نے اپنا تعلیمی نظام صرف امیروں کے لئے مختص کیا تھا اور ارسطو کو اپنی اکیڈمی میں صرف کام کاج کے لئے رکھا تھا لیکن ارسطو فارغ اوقات میں کلاس روم سے باہر افلاطون کا لیکچر سنتا تھا ایک دن افلاطون نے علم کی اہمیت پر ہر طالب علم کو تقریر کرنے کا کہا وہ سب کی تقریر سے مطمئن نہ ہو ا آخر میں ارسطو نے تقریر کی جس پر افلاطون بہت حیران ہو ااور سب کی تقر یر کے بعد آکر کہا کہ میں نے اپنا علم صحیح طریقے سے اپنے طالب علموں میں منتقل کیا مگر اصل میں بات یہ ہے کہ علم کی طلب مجھے اس بچے میں نظر آئی جسے آج دنیا ارسطو کے نام سے جانتی ہے۔
اس واقعہ کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ علم کو جب ہم امیر طبقے سے منسوب کر دیتے ہیں تو پھر اس سے غریب طلبہ محروم رہ جاتے ہیں۔
۔ حصول علم کا مقصد صرف ذریعہ معاش کے لئے تیار ہو نا نہ ہو بلکہ اس کے ساتھ ساتھ علم کی طلب اور معاشرے کا بہترین فرد بننا ہو۔
۔نظام تعلیم مختلف نہ ہوبلکہ ایک جیسا نظام تعلیم ملک میں رائج ہو ۔
۔تعلیماپنی زبان ، تہذیب، ثقافت اور اپنی روایات سے وابستہ ہو ۔اگر ہم ترقی یافتہ ممالک کو دیکھیں تو انہوں نے اپنی ترقی اپنے اقدار ، ثقافت اور زبان کے ذریعے حاصل کی ۔ہماری ترقی بھی اسی میں ہے ۔جب تک ہم اپنی زبان ، تہذیب، ثقافت اور اپنی روایات سے وابستہ نہیں ہونگے تب تک ترقی نا ممکن ہے۔
۔ملک میں طالب علموں کے لئے بہترین نوکریوں کا انتظام ہو اور ہنر مند اور قابل طالب علموں کی قدر ہو کیونکہ حوصلہ افزائی سے طالب علموں میں علم کا شوق باآسانی ابھا را جا سکتا ہے۔
۔اساتذہ کو چائیے کہ وہ اپنے فرائض احسن طریقے سے نبھائےاور اپنے طالبعلموں کے ذہنوں میں علم کی جستجو پیدا کریں کیونکہ یہ جستجو جس قدر قوی ہوگی اسی لحاظ سے ملک و قوم ترقی کرے گا۔
اللہ سے دعا گو ہوں کہ اللہ تعالی ٰ ہمارے ملک کے نوجوانوں میں علم کا جذبہ بیدار کرے ، اس راہ میں آسانیاں پیدا کرے اور مزید کامیابی عطا کرے ۔ آمین۔
علامہ اقبال فرماتے ہیں:
جوانوں کو میری آہ سحر دے
پھر ان شاھین بچوں کو بال و پردے
خدایا آرزو میری یہی ہے
مرانور بصیرت عام کردے

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here