پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ کی کتاب بعنوان ”میں نے پاکستان بنتے دیکھا“ کی تقریب رونمائی

0
1340

پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ کی کتاب بعنوان ”میں نے پاکستان بنتے دیکھا“ کی تقریب رونمائی
پروفیسر متین الرحمن کی کتاب بعنوان میں نے پاکستان بنتے دیکھا کی تحریر پڑھ کر ہر صاحب دل انسان اشکبارہوتاہے۔مقررین
کراچی:(اسٹاف رپورٹر) پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ تقسیم ہند کے وقت اپنے چھوٹے بھائی سمیت والدین سے بچھڑ کر کئی ماہ تک جن مشکلات سے گزرے اس کی داستان انہوں نے اپنی کتاب بعنوان میں نے پاکستان بنتے دیکھا میں تحریر کی ہے جس سے پڑھ کر ہر صاحب دل انسان اشکبارہوتاہے،وہ پاکستان سے ٹوٹ کر محبت کرنے والے انسان تھے۔قیام پاکستان کے وقت جو پاکستان کی طرف ہجرت کرنے والوں کے ساتھ بیتی اور جو کچھ ان کے ساتھ ہندوؤں اور سکھوں نے کیا ان چشم دید واقعات کو تحریر کرکے انہوں نے ہماری نوجوان نسل پر بہت بڑااحسان کیا ہے۔انہوں نے اپنی مختصر مگر جامع کتاب میں جوتحریر لکھی وہ پڑھ کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔اپنے گھر سے پوراخاندان لے کر نکلنے والے مسلمان پاکستانی زمین پرخون کا دریاعبورکرکے اکیلے پہنچتے ہیں توان پر کیا بیتتی ہے یہ وہ ہی جانتے ہیں،مسلمانان برصغیر خون کادریاعبورکرکے پاکستان پہنچے ہیں۔
ان خیالات کا اظہار مقررین نے شعبہ ابلاغ جامعہ کراچی میں پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ (مرحوم) کی کتاب بعنوان: ”میں نے پاکستان بنتے دیکھا“ کی تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔تقریب میں جامعہ کراچی کے مختلف شعبہ جات کے اساتذہ،طلبہ اورپروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ کے اہل خانہ نے بھی شرکت کی۔
مقررین میں رئیسہ کلیہ فنون وسماجی علوم پروفیسر ڈاکٹر نسرین اسلم شاہ،نامورصحافی محمودشام،چیئرپرسن شعبہ ابلاغ عامہ جامعہ کراچی پروفیسر ڈاکٹر فوزیہ ناز، سابق چیئر مین شعبہ ابلاغ عامہ پروفیسر ڈاکٹر طاہر مسعود،سابق رئیس کلیہ فنون وسماجی علوم پروفیسر ڈاکٹر شمس الدین،پروفیسر ڈاکٹر نثارزبیری،حفیظ فاطمہ اور ڈائریکٹر شعبہ تصنیف وتالیف وترجمہ سید اقبال حسین شامل تھے۔
اس موقع پر رئیسہ کلیہ فنون وسماجی علوم پروفیسر ڈاکٹر نسرین اسلم شاہ نے کہا کہ پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ کی کتاب میں نے پاکستان بنتے دیکھا کی موجودگی کو تمام سیمینار لائبریریز میں یقینی بنایا جائے تاکہ ہماری نوجوان نسل اس کا مطالعہ کرسکیں اور انہیں اس بات کا اندازہ ہو کہ آزادی کی کتنی بڑی قیمت اداکرنی پڑتی ہے،ہم سب کو اپنے ملک کی ترقی کے لئے اپنا اپنا کردار اداکرنا چاہیئے۔
چیئر پرسن شعبہ ابلاغ عامہ ڈاکٹر فوزیہ ناز نے کہا کہ اگرچہ آج پروفیسر متین الرحمن مرتضیٰ موجود نہیں ہے لیکن ان کی تحریریں موجود ہیں جس سے ہم ہمہ وقت استفادہ کرسکتے ہیں۔انہوں نے اپنی کتاب میں پاکستان بنتے دیکھا میں اپنی تحریر کے ذریعے ہجرت کی جس طرح سے منظر کشی کی ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ان کی تحریر میں اتناتسلسل اور تجسس ہے کہ گویاہر جملہ دوسرے جملے کے بغیر ادھوراہے۔
سابق چیئر مین شعبہ ابلاغ عامہ جامعہ کراچی پروفیسر ڈاکٹر طاہر مسعود نے کہا کہ پروفیسر متین الرحمن کی بہت سی حیثیتیں ہیں ایک حیثیت یہ تھی کہ وہ ایک استاد تھے،دوسری حیثیت یہ تھی کہ وہ صحافی اور تیسری یہ کہ وہ ایک سوچنے،سمجھنے والے ایسے دانشور تھے جو مشکل اور پیچیدہ مسائل میں بھی حل کا راستہ تلاش کرلیتے تھے۔وہ ایک عظیم انسان تھے جنہیں شہرت اور منصب کی کوئی تمنا نہیں تھی بلکہ وہ گوشہ عافیت میں بیٹھ کر صرف کام اور کام ہی کرنا چاہتے تھے۔
پروفیسر ڈاکٹر نثارزبیری نے کہا کہ پروفیسر متین الرحمن نے اپنی مختصر کتاب میں بہت کچھ لکھا جوانتہائی اہمیت کی حامل ہے اور شاید انہیں اندازہ تھا کہ آج کل لوگ کتاب نہیں پڑھتے۔انہوں نے کہا کہ میری تمام نوجوانوں سے گذارش ہے کہ وہ پروفیسر متین الرحمن کی کتاب کا مطالعہ کریں۔ان کی کتاب کا مطالعہ کرتے ہوئے روناآتاہے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here