پاکستان کی آٹھ میں سے ایک خاتون بریسٹ کینسر کا شکار ہے

0
1175

پاکستان کی آٹھ میں سے ایک خاتون بریسٹ کینسر کا شکار ہے
ہمارے ملک میں آگہی نہ ہونے کے باعث اس مہلک مرض کے علاج کی شرح ترقی یافتہ ممالک سے نصف ہے
پاکستان میں بریسٹ کینسر کی شرح بھارت اور افغانستان سے بھی زیادہ ہے،
سول اسپتال کراچی مین بریسٹ کینسر کے علاج کی تمام سہولتیں موجود ہیں، میڈیکل سپرٹنڈینٹ
کراچی:(اسٹاف رپورٹر) ممتاز ماہرینِ صحت نے کہا ہے کہ پاکستان کی ہر آٹھویں عورت بریسٹ کینسر سے متاثر ہے، ترقی یافتہ ممالک اس مہلک مرض کا علاج 80 فیصد تک کامیابی سے کیا جا رہا ہے، جبکہ مڈل انکم ممالک میں بریسٹ کینسر کاعلاج 60فیصد تک ہورہا ہے، لیکن پاکستان جیسے کم آمدنی والے ملک میں اس مرض کا صرف 40فیصد تک علاج ممکن ہو پا رہا ہے اور کم شرح سے اسکے علاج کی بنیادی وجہ ہمارے یہاں آگہی کی کمی ہے۔انہوں نے یہ باتیں ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے زیرِ اہتمام بریسٹ کینسر کی عوامی آگہی کیلیے ہائیر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) اور پنک ربن یوتھ اویرنیس پروگرام کے اشتراک سے منعقدہ ویبی نار سے آن لائن خطاب کرتے ہوئے کہیں، جس میں ماہرین ِ صحت نے پاکستان میں بریسٹ کینسر سے بچاؤ اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی تاکید کی، ماہرین کا کہنا تھا کہ بریسٹ کینسر قابلِ علاج مرض ہے، اس کی بروقت تشخیص سے نہ صرف اس کا علاج ممکن اور آسان ہوجاتاہے، دنیا بھر میں بریسٹ کینسر تیزی سے پھیل رہا ہے، پاکستان میں صحتِ عامہ کے بہت سے مسائل ہیں، خواتین میں بریسٹ کینسر خطرناک اور جان لیوا ثابت ہوتاہے، ویبنا ر سے ہیڈ آف بریسٹ کینسر یونٹ سول اسپتال کراچی پروفیسر فرحت جلیل، کنسلٹنٹ بریسٹ کینسر سرجن یوکے ڈاکٹر معصومہ زیدی، کرن اسپتال کراچی کے ماہرِ کینسر ڈاکٹر اصغر حسین، اسسٹنٹ پروفیسر ڈاؤ انٹرنیشنل میڈیکل کالج ڈاکٹر عمیمہ سلیم نے بھی خطاب کیا، جبکہ پینلسٹ کے طورپر کنسلٹنٹ بریسٹ سرجن آٖغا خان اسپتال پروفیسر شائستہ مسعود خان اور سول اسپتال کراچی کے ایم ایس پروفیسر نور محمد سومرو نے انجام دیئے اور موڈریٹر اور فوکل پر سن کے فرائض اسسٹنٹ پروفیسر سرجری ڈاکٹر عمرانہ ذوالفقار نے ادا کئے۔
ویبی نارسے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر فرحت جلیل نے کہا کہ خواتین میں بریسٹ کینسر سب سے زیادہ پایا جانے والا کینسر ہے، بریسٹ کینسر کی صورت میں اس کا طریقہ علاج آپریشن، کیموتھراپی یا ہارمونل تھراپی کے ذریعے کیا جاتاہے، جلد تشخیص سے مریض کو نقصان کم سے کم اور علاج آسان ہوتاہے، انہو ں نے کہا کہ 20سال کی عمر سے ہی خواتین کو ماہانہ ازخود معائنہ کرنا چاہیے، انہو ں نے نوجوان خواتین کو ازخود معائنہ کرنے کا طریقہ بھی بتایا، جبکہ چالیس سال سے زائد عمر کی خواتین کو میموگرافی کرانی چاہیے، اگر ازخود معائنہ کرنے میں کوئی علامت گٹھلی یا گلٹی محسوس ہوتو فوری ماہر ڈاکٹر سے رجوع کیا جانا چاہیے، حتمی تشخیص کیلیے ڈاکٹر نیڈل بایوپسی کریں گے، انہو ں نے کہا کہ نیڈل بایوپسی یا میموگرافی کی انسانی صحت پر نقصان نہیں، اگر چہ بیماری سے بچاؤ ممکن نہیں مگر جلد تشخیص سے مریض کی صحت اور زندگی بچائی جاسکتی ہے، خواتین میں دیر سے تشخیص سے پیچیدگیوں کے باعث کبھی آدھی چھاتی کو نکالنا پڑسکتا ہے۔بریسٹ کینسر سے 40ہزار سے زائد خواتین سالانہ موت کا شکار ہوجاتی ہیں، انہوں نے کہا کہ اس ویبی نا ر کامقصد خاص طورپر نوجوان خواتین کوآگہی دینا ہے، تاکہ مرض کی جلد تشخیص ممکن ہوسکے، انہو ں نے کہا کہ مریضوں کی عام طورپر روز مرہ زندگی، خاندانی ہسٹری یا ذاتی ہسٹری مرض کو بڑھانے میں مدد دیتی ہے۔
ویبی نارسے خطاب کرتے ہوئے اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر عمیمہ سلیم نے کہا کہ دنیا میں سالانہ 2.1ملین خواتین بریسٹ کینسر کا شکار ہوجاتی ہیں، انہوں نے بتایا کہ کینسر کے مختلف اقسام کا15فیصد اموات کا تعلق بھی بریسٹ کینسر سے ہوتاہے، انہو ں نے کہا کہ پاکستان میں اس مرض کی شرح افغانستان اور انڈیا سے بھی زیادہ ہے، پاکستان میں ہر ایک لاکھ 100,000))میں سے 23.2خواتین اس مرض کا شکار ہوجاتی ہیں، جبکہ افغانستان میں 18اورانڈیا میں یہ تعداد 13.4ہے، انہوں نے بھی مرض کی جلدتشخیص پر زور دیا کیونکہ اس سے مرض قابلِ علاج اور پیچیدگیوں سے مریض کو بچانا ممکن ہوتاہے، انہو ں نے کہا کہ مرض کی جلد تشخیص بہترین بچاؤ ہے، انہو ں نے کہا کہ جلد تشخیص کے تین طریقے میموگرافی کے ذریعے اسکریننگ، طبی معائنہ اور چھاتی کے بارے میں معلومات کا ہوناہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ایسے مریض جو ہائی رسک پر ہوں ہر چھ سے بارہ ماہ میں معائنہ کرائیں، ایسی خواتین کی عمر اگر تیس سال سے زائد ہوتو، سال میں ایک با ر میموگرافی بھی کرانی چاہیے،جبکہ کبھی کبھی بریسٹ کی MRI کی جاسکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان میں عام خواتین بریسٹ کینسر کے مطالق خوف، فنانینشل کنڈیشن، گھر سے اجازت نہ ہونا کی وجہ سے معائنہ کے لیے نہیں آتی، جبکہ کچھ خواتین اسے وقت کا ضیاع، تکلیف دہ عمل، شرمندگی، کوئی علامت کے نہ ہونے یا میموگرافی کے بارے میں معلومات کی کمی بھی سبب ہیں،انہوں نے کہا کہ ایک ماہر ڈاکٹر مریض کو بروقت ٹھیک معائنہ کرکے مرض کی پیچیدگی سے بچا سکتا ہے۔
ویبی نارسے خطاب کرے ہوئے ڈاکٹر معصومہ زیدی نے کہا کہ دنیا میں 1970سے بریسٹ کینسر کے لیے سرجری ہورہی ہیں، مگر اب اس مرض کے لیے جدید طریقہ علاج کامیابی سے استعمال کیا جارہاہے، جن کی مدد سے 40ملی میٹر تک کی گٹھلی کو باآسانی ختم کیا جاسکتاہے، انہو ں نے پیچیدگی کی صورت میں طریقہ علاج اور بچاؤ سے بھی آگہی دی، انہوں نے بتایاکہ پاکستان کی نسبت UKمیں اسکریننگ کافی عام ہے، یہ مرض UKمیں بھی کافی تعداد میں خواتین میں پایا جاتاہے، مگر اسکریننگ کے عام ہونے کی وجہ سے بروقت تشخیص اور علاج سہل ہوجاتاہے، ہمیں پاکستان میں خواتین کو اپنی صحت سے متعلق آگہی پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
ویبی نار سے خطاب کرتے ہوئے کرن اسپتال کے ماہر ڈاکٹر اصغر حسین نے کہا کہ عام طور پر بریسٹ کینسر کی صورت میں علاج کیمو تھراپی اور ہارمونل تھراپی سے کیا جاتاہے، ہارمونل تھراپی ایک مختلف طریقہ علاج ہے، ایسے مریض جن کے ہارمونل ریسسپٹر ER/PRپوزیٹو ہوتو ان کا ہارمونل تھراپی دی جاتی ہے، اس میں مریض کو مخصوص دوائیں دی جاتی ہیں، جن سے ٹیومر کا سائز بہت چھوٹا اور کبھی کبھی ختم بھی ہوجاتاہے، ٹیومر اگرچھوٹے سائز میں ہوتو آپریشن کے ذریعے ختم بھی کیا جاسکتاہے، انہو ں نے بتایا کہ کیمو تھراپی کی نسبت سائیڈ ایفیکٹ بھی کم ہوتے ہیں، انہوں نے کہا کہ بریسٹ کینسر کے علاج میں مریض کے اسٹروجن لیول کو کنٹرول کرنا ضروری ہے۔انہو ں دواؤں کے استعمال اور طریقہ علاج سے آگہی دی۔
اس موقع پر ماہر کے فرائض انجام دیتے ہوئے ڈاکٹر شائستہ خان نے کہا کہ یہ مرض پاکستان میں تیزی سے بڑھ رہا ہے، جلدتشخیص کے لیے عوام میں آگہی پھیلانے کی ضرورت ہے، تاکہ اس مرض کی پیچیدگی سے بچا جا سکے۔ انہو ں نے کہا کہ ہمیں خوشی ہے کہ خواتین میں سب سے زیادہ پائے جانے والے اس کینسر کامکمل علاج پاکستان میں موجود ہے۔اس کے لیے مختلف سینڑقائم کئے گئے ہیں، تاکہ اس کے علاج کیا جاسکے۔
سول اسپتال کراچی کے ایم ایس ڈاکٹر نور محمد سومر نے کہا کہ 40سال سے زائد عمر کی خواتین کو اپنی میموگرافی کرانی چاہیے، جوہر تین سال کے بعد ہونی چاہیے، اگر کوئی فیملی ہسٹری اور رسک فیکٹر پایا جائے تو ہرسال مموگرافی کی جانی چاہیے، تاکہ بروقت تشخیص کوممکن بنایا جاسکے، انہو ں نے کہا کہ ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر پروفیسر محمد سعید قریشی کی ہدایت کی روشنی میں سول اسپتال کراچی میں بریسٹ کینسر کے مریض کے لیے تمام سہولتیں مہیا کی گئی ہیں، جس میں سندھ گورنمنٹ کی بھرپور مدد شامل ہے، جس کی وجہ سے یہ مہنگا علاج کسی بھی مریض کے لیے بغیر رقم خرچ کیے ممکن ہے، مریض کو صرف اپنا CNICکار ڈ، 2تصاویر اور کبھی کبھی بے فارم جمع کراکے اپنا علاج کرایا جاسکتاہے۔ انہو ں نے بتایا کہ ہر حمل میں بریسٹ کینسر کے مواقع بڑھ جاتے ہیں، آخر میں سرجری کے ماہر ڈاکٹر فواد علی موسٰی نے ویبی نا ر سے عوام کومعلومات فراہم کرنے پر ماہرین کا شکریہ ادا کیا۔بعد ازاں شرکا کے سوالوں کے جواب دیئے گئے۔

LEAVE A REPLY

Please enter your comment!
Please enter your name here